نیوگوادر ایئرپورٹ، ایک اہم سنگ میل

 یہ وطن عزیز میں 2014 سے لے کر تادم تحریر برسر اقتدار رہنے والے متعلقہ حکام کی سستی اور نا اہلی نہیں تو پھر کیا ہے کہ جس کی وجہ سے گیس پائپ لائن بچھانے میں ناکامی پر ایران نے پاکستان کو آئندہ ماہ عالمی ثالثی عدالت جانے کا حتمی نوٹس دیدیا ہے شنید ہے کہ ہمارے سینئر سرکاری حکام نے ایران کے اس نوٹس پر اب غیر ملکی قانونی فرموں سے خدمات لینے کی تیاری شروع کردی ہے جس پر ظاہر ہے کہ کافی لمبا چوڑا خرچہ آئیگا اگر متعلقہ حکام بر وقت کاروائی کرتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ اگر تو نیو گوادر ایئرپورٹ اہم چینی شخصیات کی آ مد پر اکتوبر میں آ پریشنل ہو جاتا ہے کہ جس کا قوی امکان ہے تو یہ وطن عزیز کی معیشت کی بحالی میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ سابقہ فاٹا خصوصاً وزیرستان اور اس سے ملحقہ لکی مروت جیسے علاقے اور وزیرستان سے کچھ ہی فاصلے پر واقع بلوچستان کی جغرافیائی حدود میں میں وطن عزیز کے دشمنوں نے دہشت گردی کی انتہا کر دی ہے‘ کئی لوگ وزیر داخلہ کے اس بیان 
کو لایعنی تسہیل over simplification قرار دیتے ہیں کہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں اور ان سے نبٹنے کے واسطے کسی آپریشن کی ضرورت نہیں۔وزارت داخلہ اب تک تو پاک افغان بارڈر طورخم پر بارڈر مینجمنٹ کو استوار نہیں کرسکی ہے جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہاں تعینات سیکورٹی اہلکار ایک دوسرے پر بندوقیں تان لیتے ہیں کجا کہ وہ ایک ایسا میکینزم مرتب کر سکے کہ جو افغانی ایک مرتبہ ویزا لے کر جب بھی پاکستان میں داخل ہو تو حکومت کو پتہ چل سکے کہ ویزا کی میعاد ختم ہونے پر وہ وطن واپس جا چکا ہے 
یا نہیں پشاور سے لے کر کراچی تک جگہ جگہ افغانیوں نے اپنی رہائش کے واسطے کچی بستیاں تعمیر کر رکھی ہیں‘ انہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ بھی حاصل کر رکھے ہیں جن کی بنیاد پر وہ دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔ بزرگوں کا یہ کہنا کتنا صحیح تھا کہ دس بھادوں کے بعد راتیں خنک ہو جایا کرتی ہیں جو موسم سرما کے آ نے کی نوید دیتی ہیں آج کل موسم کی کچھ اسی قسم کی کیفیت ہے کہ دن گرم اور رات سرد ہو رہی ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ بڑا صائب اقدام ہے کہ جسکے تحت رائٹ سائزنگ کے ضمن میں پہلے مرحلے میں 6 وزارتوں میں 82 ادارے 40 میں ضم کئے جا رہے ہیں حکومت کو بے جا اخراجات میں حتی الوسع کمی کرنا ہوگی تب کہیں جا کر ملک کی زبوں حال معیشت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں ملازمین کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے‘ وفاقی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں منشیات کی 
فروخت کی اطلاعات آ رہی ہیں جو یقینا تمام والدین کیلئے لمحہ فکریہ فراہم کرتی ہیں یہ والدین اور صرف والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اس بات پر گہری نظر رکھیں کہ انکے بچے اور بچیاں ان سے روزانہ جو پاکٹ منی لیتے ہیں ان کا مصرف کیا ہے تعلیمی اداروں کے منتظمین اپنے اداروں کے اندر کینٹین شاپس پر بھی کڑی نظر رکھیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ منشیات سپلائی اور فروخت کرنیوالوں کو سخت ترین سزا دیکر نشان عبرت بنایا جائے۔ ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کیلئے مختلف ادوار میں مختلف اقدامات کئے جاتے رہے ہیں تاہم یہ سب اقدامات لاحاصل ہی رہے ہیں‘ ٹریفک انجینئرنگ کے ضمن میں کئی تجربات کئے گئے‘ جب بی آر ٹی شروع کی گئی تو روڈ پر سے لوکل بسوں کو چلنے سے بھی روک دیا گیا مگر کچھ عرصہ ہوا چند لوکل بسیں دوبارہ شہر کی بڑی سڑکوں پر رواں دواں دکھائی دے رہی ہیں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے کوئی مستقل منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔