بلوچستان توجہ کا مستحق

ہمارے ملک میں بڑھتے مسائل اور ترقی کے عمل میں سست روی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر مملکت کے امور چلانے کے لئے کئی عشروں تک تجربوں کو ہی قراردیا جا سکتا ہے‘کسی ایک نظام کو مستقل طورپر شکنے نہیں دیا گیا اس کی مثال مشرف کے دور میں مجسٹریسی کے پرانے نظام کے لپیٹنے کی دی جا  سکتی ہے‘ایسا کرنے سے پہلے مناسب ہوم ورک نہیں کیا گیاجس کا خمیازہ آج ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں گڈ گورننس کے فقدان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں  اس  نظام کو پنپنے میں ایک لمبا عرصہ گزرا تھا اسے ختم کرنے سے پہلے کسی نے یہ نہ سوچا کہ اس کے خاتمے سے ملک کے انتظامی ڈھانچے میں کیا کیا مشکلات رونما ہو سکتی ہیں   اس نظام میں ایک چیک اور بیلنس سسٹم موجود تھااچھا بھلا سسٹم چل رہا تھا اس کو ختم کرتے ہوئے ملک میں ایک نیم دلانا قسم کے لوکل گورنمنٹ کے نظام کا اجرا کیا گیا جو نہ چل سکا دراصل اس ملک میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کی نہ چلنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اراکین صوبائی حکومت ان کو مناسب اختیارات ٹرانسفر نہیں کرتے۔اس وقتبلوچستان جس قدر زندگی کے ہر شعبے میں حکومتی توجہ کا مستحق ہے اس قدر توجہ غالباً اسے نہیں مل رہی جو بات قابل افسوس ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اس صوبے کے ایوان اقتدار میں کافی عرصے تک مقامی سردار بھی براجمان رہے کہ بھلے  اگر وہ بھی اپنے اپنے دور اقتدار میں اپنے صوبے میں اجتماعی عوامی فائدے کے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کراتے تو کافی فرق پڑ سکتا تھا‘ بہر حال جوہونا تھا وہ توہو چکا اب اس پر آنسو بہانے کا کیا فائدہ اب آ گے کی فکر کی ضرورت ہے۔


۔وزیر اعظم صاحب یہ معمول بنا  لینا چاہئے کہ وہ ہر ماہ بلا ناغہ دو چار دن کے لئے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنا  کیمپ آفس لگایا کریں جہاں وہ کھلی کچہری بھی لگائیں اور اپنی کابینہ کے اراکین کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں‘بلوچستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے کثیر المقاصد ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جن کی مانٹرنگ از حد ضروری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مانیٹرنگ جس شعبے میں بھی ہوگی وہاں نتائج سو فیصد عوام کے حق میں ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔