محکمہ موسمیات کی اکثر پیشنگوئیاں درست ثابت ہو رہی ہیں جو اس بات کی غماز ہیں کہ سائنس کس قدر ترقی کی منازل طے کر چکی ہے‘محکمہ موسمیات نے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ امسال مون سون کی بارشوں سے بڑے نقصانات ہوں گے‘ جو وقت نے ثابت کیا کہ یہ پیشنگوئی صحیح ثابت ہوئی‘لوکل گورنمنٹ کے ادارے یعنی میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنز کا یہ وطیرہ ہی نہیں ہے کہ وہ ماضی سے سبق لیں‘ان کے متعلقہ محکموں کو اچھی طرح علم ہے کہ مون سون کی بارش ہر سال کب ہوتی ہے اور ان کوکس ماہ تک اپنے اپنے دائرہ اختیار میں واقع پانی کے قدرتی بہاؤ کی گزرگاہوں اور محلوں کی نالیوں کی صفائی کر دینی چاہئے تاکہ سیلابی قسم کی بارشوں سے شہر کی سڑکیں پانی میں ڈوب کر کہیں نہر نہ بن جائیں کہ جس سے اگر ایک طرف ٹریفک کا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے تو دوسری طرف فیزیکل انفراسٹرکچر کی تباہی سے حکومت کا کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوتا ہے‘ اس صورت حال کے لئے عوام بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں کہ وہ اپنے گھروں کا کچرا نالیوں میں پھینک دیتے ہیں‘ پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی تو ہے پر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور اس سے بھی کافی حد تک پانی کی گزرگاہوں کی بندش ہوتی ہے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بھلے کوئی بھی محکمہ کیوں نہ ہو‘سرکاری ہو کہ نجی‘ اس کے اہلکاروں کی سروس میں توسیع نہیں ہونی چاہیے کہ اس سے ان جونیئر اہلکاروں کی دل شکنی ہوتی ہے کہ جن کا سینئر اہلکاروں کی ریٹائرمنٹ کے بعد سنیارٹی لسٹ میں پروموشن کا نمبر ہوتا ہے کسی دور میں ریٹائرمنٹ کی عمر 55 برس ہوا کرتی تھی جو درست اسلئے تھی کہ اس خطے میں بسنے والے اکثر لوگ 55سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد صحت کے لحاظ سے روبہ زوال ہو جاتے ہیں‘انکے حواس خمسہ جواب دینے لگتے ہیں شاذ ہی کوئی خوش قسمت ہو گا جو اس عمر تک بغیر عوارض قلب یا شوگر میں مبتلا ہوئے پہنچ جاتا ہو‘ ایک حالیہ ریسرچ تو یہ بتلاتی ہے کہ 100 میں سے صرف 11افراد ہی 60 برس کی عمر کو پہنچتے ہیں‘ باقی تو اس سے پہلے ہی داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں 55سال کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو 58 اور پھر 60 برس تک بتدریج بڑھایاگیا‘ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک سینئر بیوروکریٹ جو ایوب خان کے منظور نظر اور دست راست تھے‘55کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور ایوب خان ان کی خدمات سے مزید استفادہ کرنا چاہتے تھے‘چنانچہ ان کی خاطر یہ عمر 55 سے 58 سال کر دی گئی اور پھر تاریخ نے اپنے آپ کو اس وقت دہرایا کہ جب ضیا ء الحق بھی ایک سینئر بیوروکریٹ کو کہ جو 58 برس کی عمر کو پہنچ گئے تھے‘ اپنی ٹیم میں مزید رکھنا چاہتے تھے‘سو 58 سے یہ عمر 60 برس تک بڑھا دی گئی‘ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان دو اقدامات سے بہتوں کا بھلا ہوا اور انہوں نے بھی ان مراعات سے فوائد حاصل کئے‘بلوچستان کے عوام کے مسائل کے حل اور وہاں امن عامہ کو یقینی بنانے کیلئے جہاں اور تجاویز زیر بحث ہیں وہاں اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صوبے میں سول سروس اور سکیورٹی سروسز کے بہترین اہلکار وہاں شروع میں کم از کم تین برس تک تعینات کرے۔
کہ جن کی عمومی شہرت اچھی ہو وہ دیانتدار اور فرض شناس ہوں‘امید رکھنی چاہئے اس فیصلہ سے مطلوبہ توقعات پور ی ہو سکیں۔