چین غالباً دنیا کا واحد کمیونسٹ ملک ہے کہ جس نے معیشت کے بارے میں کارل مارکس کے فلسفے کو اپنے ہاں سنجیدگی سے اپنا کر اسے من عن ملک میں نافذکیا ہے اور پوری چینی قوم اس معاشی فلسفے کے ثمرات سے آج فائدہ اٹھا رہی ہے‘وہاں مٹھی بھر اشرافیہ عام آدمی کا معا شی استحصال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی‘یہ کارل مارکس کے فلسفہ معیشت پر کاربند رہنے کی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں چین کے اندر کئی کروڑ لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے رہتے تھے وہ اس لکیر کو پھلانگ کر اوپر آ چکے ہیں‘ اس قسم کی مثال ہمیں تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی‘ چین کے معاشی استحکام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے حکمرانوں نے چین کو عالمی تنازعات میں اپنے ملک کو پھنسانے سے احتراز کیا اور اس طرح اپنے ملک کی تمام تر توانائی ملک کی ترقی کی طرف مبذول رکھی‘ اس کے علاوہ اس کی قیادت نے پہلے خود مالی دیانتداری سادگی اور قناعت کا مظاہرہ کر کے عوام کے لئے ایک اچھی مثال قائم
کی اور بعد میں سرکاری ڈھانچے میں کرپٹ عناصر کو جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینکا۔سوویت یونین بھی اپنے وقت کا ایک مضبوط کمیونسٹ ملک ہوا کرتا تھا‘پر لینن کی وفات کے بعد اسے لینن جیسا رہنما نصیب نہ ہو سکا اور اس کمزوری کا امریکہ نے فائدہ اٹھا کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا‘ سوویت یونین کو لینن کے بعد جو لیڈرشپ میسر آئی‘ اس نے عالمی سیاست میں اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے‘ اپنی مالی حیثیت سے زیادہ خرچ کیا‘ جس کی وجہ سے وہ معاشی طور پر کمزور ہوااور اس طرح اس کا شیرازہ بکھر گیا۔ کچھ اسی قسم کی کیفیت سے آج امریکہ بھی دوچار ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق اس کا بھی حشر جلد یا بدیر سوویت یونین جیسا ہی ہوگا‘ خبط عظمت کی وجہ سے دنیا کی جو جو بڑی سلطنتیں تباہ ہوئی ہیں ان کی کہانیوں سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ پنجاب کو فضائی آ لودگی سے پاک کرنے کے واسطے اس صوبے کی وزیراعلی مختلف نوعیت کے جو اقدامات اٹھا رہی ہیں وہ قابل ستائش بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔ حکومت نے اچھا کیا جو یوٹیلیٹی اسٹورز بند نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اسے اپنے وقار کا مسئلہ نہیں بنایا‘ اس ضمن میں آئندہ جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ ان سٹورز کے ملازمین کی مشاورت کے ساتھ لیا جائے اور حتی الوسع کوشش کی جائے کہ بے روزگاری کم سے کم ہو۔
بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم کچھ عرصے سے مکافات عمل کا شکار ہیں‘ خداکی زمیں ان پر تنگ ہوتی نظر آ رہی ہے‘ماسوائے بھارت کے کوئی دوسرا ملک ان کو سیاسی پناہ دینے کے لئے تیار نظر نہیں آ تا‘بھارت بھی آ خر کب تک ان کو پناہ فراہم کر کے بنگلہ دیش میں بسنے والی ایک بڑی آبادی کو نالاں کرے گا کہ جو حسینہ واجد کے ظلم و ستم اور جبر کا کافی عرصے تک شکار رہی ہے۔