توجہ طلب سوالات  

ایک منچلے نے ہم سے بعض ایسے سوالات کئے ہیں کہ جو بڑے فکر آموز ہیں اس نے لکھا ہے کہ اگر اسمبلیوں میں عوام کے منتخب نمائندوں میں سے کوئی یہ سمجھنے لگے کہ بس وہ ہی عقل کل ہے اور عوام کے مسائل صرف وہی حل کرنے کا اہل ہے  کہ  اس نے الیکشن میں ہزاروں لوگوں کے  ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے تو یہ اس کی بڑی بھول ہو گی‘جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں  بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہمارے مرض کی دوا صرف ان  کے پاس ہی  ہو کہ جو  جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگاتے ہیں اور جو وطن عزیز کے ایوان اقتدار میں 1952ء سے مختلف روپ دھار کر براجمان ہوتے  رہے  ہیں‘پر وہ عوام کے  نہ مسائل حل کر سکے اور نہ ان کے دکھوں کا مداواکر سکے،  ہم اس نظام حکومت کو کیوں نہیں اپناتے  کہ جو 1949ء سے چین میں نافذ ہے اور جس نے وہاں بسنے والے لوگوں کی معاشی زندگی کو   ا ہل مغرب کے لوگوں کے معیار زندگی سے اگر بہتر نہیں تو کم از کم  ان کے برابر ضرور کر دیا ہے‘ امریکہ کا صدارتی الیکشن بھی نزدیک ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حریف کامیلا اپنی الیکشن مہم میں ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔پبلسٹی اور پراپیگنڈے میں بس خفیف سا ہی فرق ہے‘ اول الذکر کو  مثبت اور ثانی الذکر کو  منفی مقاصد کے حصول کے واسطے  استعمال  میں لایا جاتا ہے یہ امر خوش آئند ہے کہ انجام کار بنگلہ دیش میں اب یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ پاکستان سے دشمنی کا کوئی فائدہ نہیں اور پاکستان سے دوستی کرنے میں ہی فائدہ ہو گا۔


آئیے اب ذرا آج کے تازہ ترین ملکی اور عالمی معاملات پر ایک نظر ڈال لی جائے لیکن اس سے پیشتر اس تلخ  حقیقت کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ یہ دنیا جی لگانے کی جگہ نہیں ہے‘ ایک شاعر کی  وصیت کے مطابق اس کی قبر پر جو کتبہ نصب کیا گیااس پر اس نے کیا خوب بات لکھوائی کہ۔ دو گز زمین ہی سہی میری ملکیت تو ہے۔”اے موت مجھے تو نے زمیندار کر دیا“