لائبریری کلچر کا فقدان

اپنے قارئین کے اصرار پر آج کے کالم کا آ غاز ہم چند اقوال زریں سے کر رہے ہیں؛”جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں“”قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا“”دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے“”جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں“”اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے مایوس ہو جائے“ ”بوڑھے کی رائے جوان کی ہمت سے زیادہ اہم ہوتی ہے“”دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے کہ جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اسکے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے‘ فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھنچتا ہے اور ہوشمند و دانااس سے بچ کر رہتا ہے“”جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا“ اقوال زرین درج کر تے ہوئے ہم بھول گئے کہ آج یوم دفاع ہے‘ قوم  آج یہ دن اپنی ائر فورس کے اس عملے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مناتی ہے جن میں  پاکستان ائرفورس کے ہواباز اور  ائر ڈیفنس کا عملہ شامل ہے کہ جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ستمبر کے اسی ماہ میں اپنی بہترین کارکردگی سے دنیا پر ثابت کیا کہ پی اے ایف پیشہ ورانہ مہارت میں کسی سے کم نہیں‘ اس کے عملے نے اپنے سے چھ گنا بڑی انڈین ائر فورس کے دانت کھٹے کئے کوئی مانے یا نہ مانے‘ پی ایف کو خدا نے ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان کی شکل میں دو ایسے ائر چیف عطا کئے کہ جو  صرف  میرٹ اور میرٹ پر یقین رکھتے تھے انہوں نے اپنی انتظامی اور فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پاکستان کی فضائیہ کو  مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جس کی وجہ سے ہمیں ایم ایم عالم  اور ان جیسے کئی اور ہواباز ملے جو اپنے پیشے میں لاثانی تھے‘ رسالپور میں پی ایف اکیڈمی کا قیام بھی درجہ بالا ائر چیفس کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ آئیے اب ملک میں لائبریری کلچر کے فقدان کے بارے میں چند باتیں ہو جائیں‘ جن ممالک نے دینی سماجی سیاسی  اور سائنسی علوم میں ترقی کی ہے ان کے ہر شہر میں ہر فرلانگ کے بعد آپ کو ایک لائبریری  نظر آء ے گی اپنے ہاں الٹی گنگا بہتی  ہے پشاور شہر کی ہی مثال لے لیجئے گا کچھ عرصہ پہلے تک میونسپل کمیٹی کی ایک اچھی بھلی  لائبریری شہر کے وسط میں چوک یادگار کے قریب ہوا کرتی تھی اب اس کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے‘ اسی طرح ہمیں   یاد ہے پشاور شہر کے کئی محلوں میں میونسپل کمیٹی کے ریڈنگ رومز ہوا کرتے تھے جن میں اخبارات اور رسائل موجود ہوتے جو محلے میں بسنے والے بڑے شوق سے پڑھتے‘اب یہ سب باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں‘مغرب میں تو انہوں نے نظام تعلیم ہی اس نوعیت کاوضع کیا ہوا ہے کہ  تعلیمی اداروں کے ہر طالب علم کو لازماً لائبریریوں   میں بیٹھ کر متعلقہ کتابوں کو پڑھ کر مضامین لکھنا پڑتے وہاں  رٹا سسٹم نہیں چل سکتا جب تک اس ملک کی نئی نسل کتب بینی کی طرف مائل نہ ہوگی یا ان کو اس طرف مائل نہیں کیا جائے گا‘ یہ ملک زندگی کے کسی  بھی میدان میں آ گے نہیں بڑھ سکے گا ماہرین تعلیم کو ملک میں لائبریری کلچر کو فروغ دینے کیلئے خصوصی توجہ دینا ہوگی۔  پنجاب کی وزیر اعلیٰ  زندگی کے مختلف شعبوں میں تیزی اور دلجمعی سے اختراعی کام کر رہی ہیں کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی کہ وہ پنجاب کی سطح پر لائبریری کلچر کے فروغ کے واسطے کوئی منصوبہ شروع کریں‘ شاید ان کی  دیکھا دیکھی  اس ضمن میں دیگر صوبے بھی پھر  اس سلسلے میں مناسب اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائیں‘ 1960ء کی دہائی تک پرانے سیاست دانوں کا یہ شیوہ تھا کہ وہ کسی مسئلے پر حکومت وقت کے خلاف احتجاج کرتے تو عشاء کی نماز کے بعد شہر کے کسی مرکزی مقام پر جلسہ عام منعقد کرتے جو رات گئے تک جاری  رہتا‘ نہ ٹریفک میں خلل پڑتا اور نہ ٹریفک جام سے لوگوں کے معمولات زندگی  متاثر ہوتے یہ جلسے چوک یادگار پشاور‘ لیاقت باغ پنڈی‘موچی گیٹ لاھور وغیرہ   جیسے مرکزی  مقامات پر منعقد ہوتے‘آج کل تو بات بات پر یہ لوگ ہجوم اکٹھا کرنے کیلئے سڑکوں کے وسط میں کھڑے ہو کر تقریریں شروع کر دیتے ہیں جو راہ گیروں کیلئے درد سر بن جاتا ہے۔