1958 ء میں ملک میں مارشل لگاتے وقت فیلڈ مارشل ایوب خان نے کہا تھا کہ پاکستانی عوام کا مزاج اور ذہانت پارلیمانی نظام حکومت سے میل نہیں کھاتے دو واقعات نے غالباً ان کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا تھا اولاً تو یہ کہ 1951 ء اور 1958 ء کے درمیان ہمارے سیاست دانوں نے آدھے درجن کے قریب وزرائے اعظم بدلے تھے جن میں خواجہ ناظم الدین‘ محمد علی بوگرا‘ چوہدری محمد علی‘حسین شہید سہروردی‘ابراھام اسماعیل چندریگر اور ملک فیروز خان نون کے نام قابل ذکر ہیں اور ثانیاً اس دوران اس وقت کے مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا اسمبلی کے فلور پر اراکین اسمبلی کے درمیان جھگڑے میں سر پھٹ گیا تھا 1947 ء سے لے کر تا دم تحریر ایک لمبا عرصہ ہے کہ جس میں وطن عزیز میں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بھی بنی ہیں‘کاش کہ اس لمبے عرصے میں کم از کم دو تہائی اکثریت سے حکومت کرنے والوں نے ہی عوام دوست قانون سازی کی ہوتی تو تب بھی کوئی بات تھی‘پر انہوں نے بھی جب اقتدار سنبھالا تو جو وعدے وعید انہوں نے عوام سے الیکشن مہم کے دوران کئے وہ فراموش کر دئیے گئے وطن عزیز کو جو سیاسی لیڈرشپ ملی اس کا تعلق یا تو بڑے بڑے لینڈ لارڈز کی کلاس سے تھا اور یا پھر انڈسٹریل کلاس سے لہٰذا انہوں نے اپنے اپنے ادوار حکومت میں اگر زندگی کے کسی شعبے میں کوئی ترقیاتی کام کیا بھی تو اپنے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے مفادات کو ہی ملحوظ خاطر رکھ کر کیا‘ جس سے اس ملک کے عام آدمی کی معاشی زندگی میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہ ہوئی اور نہ ہی ارباب بست و کشاد نے اپنی پارٹی میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عناصر کو پارٹی کے اندر کسی نمایاں منصب پر بٹھایا اور ان کو آ گے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔
ماضی کے ان چند تلخ حقائق کے ذکر کے بعد آج کے چند اہم قومی اور عالمی معاملات کا تھوڑا سا تذکرہ بے جا نہ ہوگا‘تعلیمی بورڈز کے لئے گاڑیوں کی خریداری اور عمارتوں کی تعمیر پر پابندی ایک صائب اقدام ہے کیونکہ ان بورڈز کی مالی حالت بہت پتلی ہے۔وزیر اعظم ذاتی طور پر تو بے شک کئی کھیلوں کے ملک میں فروغ کے لئے دلچسپی لے رہے ہیں‘سٹریٹ چائلڈ فٹبال اور انفرادی گیمز میں ان کی حالیہ دلچسپی ان کی ملک میں سپورٹس کے ساتھ دلچسپی کا عندیہ دیتی ہے‘ پر ادارہ جاتی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے‘ اس ملک میں ہاکی‘سکواش اور فٹ بال کا بھی کافی ٹیلنٹ موجود ہے صرف پاکستان ہاکی فیڈریشن اور فٹبال اور سکواش کی فیڈریشنوں کو متحرک کر کے ان کھیلوں کی پرانے تجربہ کار کھلاڑیوں کے ذریعے نشاۃ ثانیہ کی جائے‘ ہاکی کے میدان میں حال ہی میں کچھ پیش رفت ہوئی تو ہے پر اس میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے‘ اسی طرح سکواش کو بھی ادارہ جاتی طریقہ کار سے منظم کیا جائے‘یہ دو گیمز ایسی ہیں کہ جن میں اس ملک میں کافی پوٹینشل potential ہے ان گیمز میں جواں سال کھلاڑیوں کے لئے ہاکی میں حمیدی‘ حسن سردار‘سمیع اللہ اور سکواش میں ہاشم خان‘اعظم خان‘روشن خان‘ جہانگیر خان اور جان شیر خان جیسے رول ماڈل موجود ہیں۔سیاسی محاذ پر میثاق پارلیمنٹ ایک اچھی پیش رفت ہے جس سے امید ہے کہ پارلیمنٹ کے باہر موجود سیاسی انتشار میں کمی آ سکتی ہے۔