ایک مشہور پرانی کہاوت ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے بعض مجرموں کے کئے گئے جرائم کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کو سخت اور غیر روایتی سزا دینا ضروری ہوتا ہے‘ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سال 1800ء میں اس وقت کے پشاور کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کو پشاور کے ابتر امن عامہ کے حالات کو درست کرنے کے لئے پالیو ایوی ٹیبائل Paulo Avitabileنامی ایک اطالوی جرنیل کو کہ جو ایک کرائے کا فوجی تھا‘ پشاور کا گورنر لگانا پڑا جو 1833ء تک پشاور کا گورنر رہا اور اس نے پشاور سے جرائم اور مجرموں دونوں کا صفایا کیا‘اس سے پہلے وہ وزیر آباد میں بھی بطور گورنر رہ چکا تھا اور رنجیت سنگھ اس کی انتظامی صلاحیتوں سے متاثر تھا‘اس اطالوی جرنیل کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جرائم پیشہ افراد کو یا تو بجلی کے کھمبوں سے لٹکا کر بر سر عام پھانسی دیتاتھا اور یا پھر پشاور میں واقع مسجد مہابت خان کے مینار سے ان کو اوپر سے نیچے گرا کر موت کے گھاٹ اتارتا‘وہ پشاور کے لوگوں میں ابو طبیلہ کے نام سے مشہور تھا اور اس کی دہشت چار دانگ عالم میں پھیل گئی تھی جب تک وہ گورنر رہا پشاور کا امن عامہ درست رہا‘ ابو طبیلہ اس خطے میں بطور کرائے کے فوجی پہلے پہل شاہ ایران کی فوج کا حصہ بنا تھا اور بعد میں رنجیت سنگھ نے اس کی خدمات مستعار لی تھیں‘اس نے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ سخت رویہ برتنے سے اردو زبان کے اس محاورے کو بھی درست ثابت کیا کہ ڈنڈا علاج ہے بگڑے تگڑے لوگوں کا‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک وطن عزیز میں جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف ابو طبیلہ جیسی سخت پالیسی نہیں اپنائی جائے گی‘ وطن عزیز سے جرائم کا خاتمہ ناممکن ہے۔ چین میں اگر آج ہر قسم کے جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے تو محض اس وجہ سے کہ وہاں جرائم پیشہ لوگوں کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے جو بر سر عام ان کو بندوق کی گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں‘اسی ضمن میں اگر ایک فرنگی افسر کا بھی ذکر کر دیا جاے تو بے جا نہ ہوگا‘ اس کا نام نکلسن
تھا اور وہ 1850ء میں بنوں کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ/ڈپٹی کمشنر تھا اور اس نے بھی اپنی سخت پالیسی سے بنوں میں جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کر دیا تھا جن شخصیات کا ہم نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے ان میں ایک قدرمشترک یہ تھی کہ وہ مالی طور پر بہت دیانتدار افراد تھے اور تاریخ دان ان کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔جب تک مجرموں کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا یہ معاشرہ نہیں سدھرے گا۔ ایک سیاسی لیڈر کی اس بات میں کافی وزن ہے کہ کسی بھی ادارے کے کسی رکن بھلے سروس میں ایکسٹنشن نہ دی جائے کیونکہ اس سے پھر کئی مسائل کھڑے ہوتے ہیں‘پہلی بات تو یہ کہ ان اداروں میں نئے خون کی گردش ختم ہو جاتی ہے‘ دوسری یہ کہ کئی افراد کہ جن کی سروس میں پروموشن کا نمبر آنے والا ہوتا ہے‘وہ پروموٹ نہیں ہو سکتے کوئی شخص بھی indispensableیعنی ناگزیر نہیں ہوتا۔ ماضی کے ان چند واقعات کے ذکر کے بعد آتے ہیں آج کے چند اہم معاملات کی طرف‘وزیر اعظم ذاتی طور پر تو بے شک کئی کھیلوں کے ملک
میں فروغ کے لئے دلچسپی لے رہے ہیں‘سٹریٹ چائلڈ فٹبال اور انفرادی گیمز میں ان کی حالیہ دلچسپی ان کی ملک میں سپورٹس کے ساتھ دلچسپی کا عندیہ دیتی ہے‘ پر ادارہ جاتی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے‘ اس ملک میں ہاکی‘سکواش اور فٹ بال کا بھی کافی ٹیلنٹ موجود ہے صرف پاکستان ہاکی فیڈریشن اور فٹبال اور سکواش کی فیڈریشنوں کو متحرک کر کے ان کھیلوں کی پرانے تجربہ کار کھلاڑیوں کے ذریعے نشاۃ ثانیہ کی جائے‘ ہاکی کے میدان میں حال ہی میں کچھ پیش رفت ہوئی تو ہے پر اس میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے‘ اسی طرح سکواش کو بھی ادارہ جاتی طریقہ کار سے منظم کیا جائے‘یہ دو گیمز ایسی ہیں کہ جن میں اس ملک میں کافی پوٹینشل potentialہے ان گیمز میں جواں سال کھلاڑیوں کے لئے ہاکی میں حمیدی‘ حسن سردار‘سمیع اللہ اور سکواش میں ہاشم خان‘اعظم خان‘روشن خان‘ جہانگیر خان اور جان شیر خان جیسے رول ماڈل موجود ہیں۔سیاسی محاذ پر میثاق پارلیمنٹ ایک اچھی پیش رفت ہے جس سے امید ہے کہ پارلیمنٹ کے باہر موجود سیاسی انتشار میں کمی آ سکتی ہے۔