شہر گم گشتہ کی یادیں 

پرانا پشاور نہ جانے کہاں کھو گیا ہے فورٹ روڈ پر اب وہ سروسز کرکٹ گراﺅنڈ نظر نہیں آ تا جس پر ماضی بعید میں کئی کرکٹ ٹیسٹ اور سہ روزہ میچ کھیلے گئے ہیں‘ جس پر ایک خوبصورت پویلین بھی ایستادہ تھا جس پر کئی نامور کرکٹ کھلاڑیوں کے قدم رنجہ ہوئے ہیں ‘ اسی گراﺅنڈ کے سامنے سروسز ہوٹل بھی تھا جس میں کرکٹ کے کھلاڑی میچ کے دوران رہا کرتے ‘ اس گراﺅنڈ کے نزدیک ہی ڈینز ہوٹل کے نام سے ایک ماڈرن ویسٹرن سٹائل کا ہوٹل بھی تھا جس میں بھی کرکٹ کے کھلاڑیوں کا میچ کے دوران رہائش کا بندوبست کیا جاتا ‘اب نہ وہ سروسز ہوٹل ہے اور نہ ڈینز ‘ان کی جگہ اب اور عمارات نے لے لی ہے ‘ جس طرح پشاور شہر کے وسط میں واقع پرانے چوک یادگار کا حشر نشر کیا گیا ‘وہی سلوک ڈینز ہوٹل کے ساتھ بھی کیا گیا ‘چوک یادگار کے اس پرانے تاریخی اسٹرکچر کو منہدم کر کے ایک بھدے قسم کا اسٹرکچر کھڑا کیا گیا ہے‘ پرانے چوک یادگار کے ساتھ کئی تاریخی یادیں جڑی ہوئی تھیں اس کے چبوترے کے نیچے بنے سفید پتھر کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر اس ملک کی کئی نامور سیاسی شخصیات نے کئی کئی مرتبہ درجنوں جلسوں سے خطاب کیا تھا مقام شکر ہے کہ چوک یادگار سے چند گام کے فاصلے پر ایستادہ گھنٹہ گھر پر میونسپل اداروں کے کوتاہ نظر کرتا دھرتاﺅں کی نظر نہیں پڑی ورنہ اس تاریخی ورثے کو بھی مسخ کر دیا گیا ہوتا ‘جس کے بالکل نزدیک کریم پورہ بازار کے محلوں میں برصغیر کے عظیم مصور اور سنگتراش گل جی اور اداکار پریم ناتھ کی ولادت ہوئی تھی ‘ قلعہ بالاحصار کے سامنے جناح پارک کے نام سے جو پارک واقع ہے اس کا پرانا نام کننگھم پارک تھا کیونکہ بزرگوں نے ہمیں بتایا ہے کہ اس کو سابق صوبہ سرحد کے گورنر سر جارج کننگھم نے اپنی ذاتی نگرانی میں بنوایا تھا‘ اس پارک نے بھی کئی نشیب و فراز دیکھے‘ کبھی اس میں فٹبال ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا تو کبھی اسے سیاسی لوگوں نے جلسہ گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا‘ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ پشاور ریڈیو سٹیشن کا شمار برصغیر کے معدودے چند قدیم ترین ریڈیو سٹیشنوں میں ہوتا ہے‘ پہلے پہل ایک چھوٹے سے ٹرانسمیٹر کے ساتھ 1935 ءمیں اسے پشاور سیکرٹریٹ کی پرانی عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع کیا گیا کہ جس کا آج نام ونشان نہیں ہے ‘کاش کہ سیکرٹریٹ کی نئی عمارت بنانے والوں نے اس کمرے کو منہدم نہ کیا ہوتا‘ اس کے بعد اسے ایک لمبے عرصے تک ایک عمارت میں چلایا گیا اور چند سال قبل تک وہ اسی عمارت میں چلتا رہا‘ شاہی باغ پشاور کا حلیہ اس طرح خراب کیا گیا کہ اس میں ایک کالج کی اور بعض دفاتر کی عمارات کھڑی کی گئیں‘ پشاور صدر میں ارباب روڈ پر لندن بک ایجنسی اور سعید بک بنک کے نام سے کتابوں کی دو بڑی دکانیں ہوا کرتی تھیں‘ سعید بک بنک تو اسلام آباد شفٹ ہو گیا اور لندن بک ایجنسی بھی اب قصہ پارینہ ہے اور اسی طرح ارباب روڈ پر کسی زمانے میں کپیٹل سینما کے نام سے سینما ہاﺅس ہوتا تھا جس میں کہ صرف انگریزی زبان کی فلمیں چلائی جاتی تھیں ‘ وہ بھی اب بند بلکہ مسمارہو چکا ہے۔1980 ءتک پشاور کا امن عامہ مثالی تھا‘اس کی مثال ہم یہ دیں گے کہ پشاور شہر میں شادی کی باراتیں اکثر آ دھی رات کے بعد سڑکوں پر سے گزر کر آیا جایا کرتی تھیں جن میں دلہن کی سہیلیاں سکھیاں اور دیگر مہمان خواتین جو کہ سونے کے زیورات سے لدی ہوتی تھیں‘ ان شادیوں میں شرکت کرتی تھیں پر مجال کہ کسی چور ڈاکو کی جرات ہوتی کہ وہ ان پر سڑکوں یا گلیوں میں ہاتھ ڈال کر چوری کی کوئی واردات کرتا ‘اب دن کے وقت بھی سڑکوں پر ایسا امن نہیں جو ماضی میں رات کے وقت ہوا کرتا تھا، چند سال پہلے تک روڈ وے ہاﺅس بمقام ہشت نگری گیٹ سے نہ صرف صوبے کے تمام شہروں بلکہ لاہور تک جی ٹی ایس کی بسیں چلا کرتی تھیں ‘ چونکہ ان کا سفر محفوظ تھا اور وقت مقررہ پر وہ چلتی تھیں لہٰذا زیادہ تر مسافر اس میں سفر کرتے اور اکثر اس کی بسوں کے ٹکٹ مشکل سے ملتے‘ روڈ وے ہاﺅس سے ہی براستہ پشاور صدر اس کی بسیں اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی تک چلا کرتیں گو کہ جی ٹی ایس پبلک سیکٹر کاادارہ تھا پر پھر بھی اس کی کارکردگی پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی ٹرانسپورٹ سے بہتر تھی ‘یہی نہیں یہ بسیں ضلع پشاور کے مختلف دیہات کو بھی چلتی تھیںجس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی ادارہ کی باگ ڈور دیانت دار محنتی اور قابل افراد کے ہاتھوں میں ہو تو وہ پبلک کے لئے سود مند ہوتا ہے ۔ 1980ءتک قصہ خوانی بازار کے وسط میں واقع افغان قونصلیٹ کی بلڈنگ سے کابل کے لئے ایک بس بھی چلا کرتی تھی‘ ہر سال گرمیوں میں اگست کے مہینے میں کابل میں جشن کابل منایا جاتا جس میں پاکستان بھر سے لوگ شرکت کے واسطے اس بس میں ریڈ پاسپورٹ کے ذریعے جاتے جو اس بلڈنگ میں تعینات افغان قونصلیٹ کا دفتر جاری کرتا چونکہ کابل کے سینما گھروں میں نئی ہندوستانی فلموں کی نمائش ہوتی اس لئے ملک بھر سے فلم بین انہیں دیکھنے کابل جایا کرتے ہمیں یاد ہے کہ جب 1960ءمیں دلیپ کمار مدھوبالا اور پرتھوی راج کی مایہ ناز لاجواب فلم مغل اعظم ریلیز ہوئی تھی تو فلم بینوں کے ایک جم غفیر نے کابل کا رخ کیا تھا۔ 

سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا آج کل ایک مرتبہ پھر چرچا ہے کسی دور میں ریٹائرمنٹ کی عمر 55 برس ہوا کرتی تھی ‘ہوا یوں کہ ایک سینئر بیوروکریٹ اس عمر کو پہنچ گئے تھے اور اس وقت کے حاکم ان کو مزید سروس میں رکھنا چاہتے تھے ‘چنانچہ ان کی خاطر ریٹائرمنٹ کی عمر 58 سال کر دی گئی‘ اس سے بہتوں کا بھلا بھی ہو گیا ۔تاریخ نے اپنے آپ کو چند برس بعد دہرایا جب ضیا الحق بھی ایک سینئر بیوروکریث کو سروس میں مزید رکھنا چاہتے تھے ویسے اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو بڑھانا نہیں چاہیے کیونکہ اول تو یہ کہ اس سے بیوروکریسی میں تازہ خون آ نے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے دوسرا اس عمل سے ان سرکاری ملازمین کی دل شکنی ہوتی ہے کہ جو پروموٹ ہونے والے ہوتے ہیں اور ان سے سینئر اہلکاروں کی ملازمت میں توسیع سے ان کی پروموشن کے راستے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔