گرمی کے مہینے میں بعض دن کبھی بادلوں سے اتنے ٹھندے ہو جاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ دسمبر کا مہینہ ہو نہ امسال اورنہ سال گزشتہ میں پرانی والی گرمی رہی اور نہ سردی اور بہار کا مہینہ تو جیسے غائب ہی ہو گیا‘بہار کو تو لگتا ہے کہ جیسے سردی کھا گئی ہو‘ اس موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر کیلنڈر بدلنے پڑیں گے‘ اب سردی اور گرمی کے مہینوں والے وہ پرانے والے نام نہیں رہیں گے‘پرانے کیلنڈر میں تو بہار کا موسم فروری کے وسط سے اپریل کے وسط تک عرصے پر محیط ہوتا تھا‘ اس کے بعد گرمی 16 اکتوبر تک رہتی اور اس کے بعد پھر موسم سرما 14 فروری تک‘ اب تو یہ سب کچھ تلپٹ ہو کے رہ گیا ہے‘ ایک دوسری چیز اس موسمیاتی تبدیلی کے کارن پیدا ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پل میں گرمی کی شدت ہوتی ہے اور پھر آناً فاناً دوسرے پل میں سردی کا سماں پیدا ہو جاتا ہے‘ جس سے کئی لوگ نزلہ کھانسی کا شکار ہو رہے ہیں فضا میں کسی نہ کسی وائرس کی موجودگی رہتی ہے‘ جس نے ہر آدمی کو ماسک پہننے پر مجبور کر دیا ہے‘ویسے ماسک کا استعمال وطن عزیز کے باسیوں کے لئے ایک blessing in disguise یعنی بھیس میں برکت سے کم نہیں کیونکہ اس کو پہن کر باہر نکلنے سے انسان دیگر کئی بیماریوں‘گرد و غبار اور گلے اور سینے کی بیماریوں اور کئی دوسری وباؤں سے بھی بچ جاتا ہے کہ جن کے وائرس فضا میں پائے جاتے ہیں اور جن سے گلے اور پھیپھڑوں کی کئی بیماریاں پھوٹتی رہتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر یورپی یونین کے قانون سازوں نے تباہ شدہ ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لئے جو اہم قانون سازی کی ہے‘ یہ پیش رفت یورپ میں ماحولیاتی پالیسیوں کے خلاف کسانوں کے احتجاجی مظاہروں کے دوران ہوئی ہے‘نئے قانون کے تحت یورپی یونین کیلئے ایک ایسا ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ انہیں 2030ء تک یورپی یونین کے کم از کم 20 فیصد زمینی اور سمندری علاقوں کو بحال کرنا ہو گا‘موسمیاتی تبدیلی کے مضمرات سے نمٹنے کیلئے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بھی پالیسی سازی کرنی ہو گی۔یہ خبر کرہ ارض پر بسنے والے کروڑوں انسانوں کے لئے تشویشناک ہے کہ اوزون ozoneکی تہہ میں شگاف پڑنے سے کرہ ارض پر موجود ہر جاندار خطرہ سے دوچار ہے اس شگاف کی وجہ سے الٹرا وائلٹ شعاعوں rays ultra Violet سے انسانی زندگی کو کئی خطرات کا سامنا ہے جن کا تدارک کرنے کے واسطے ماحولیاتی تحفظ کی عالمی سطح پر اشد ضرورت ہو گی۔ وطن عزیز میں دو اقسام کے لوگ بستے ہیں ایک تو ہیں استحصال زدہ لوگ جو عام آدمی کے زمرے میں آ تے ہیں کہ ان کے پاس نہ کوئی اراضی ہے نہ سر چھپانے کے لئے کوئی چھت‘ان کا گزر بسر مزدوری پر ہے ان کے برعکس جو دوسری قسم ہے وہ استحصال کرنے والے لوگ کہلاتے ہیں ان میں بڑے بڑے تاجر صنعت کار زمیندار اور اپنا ہنر مہنگے دام بیچنے والے ہنرمند‘چین کے تعاون سے تعمیر کی گئی گوادر کی بندرگاہ کے ثمرات اب دھیرے دھیرے نمایاں ہونے لگے ہیں ترکمانستان گوادر بندرگاہ تک رسائی حاصل کرنے والا پہلا وسطی ایشیائی ملک بن رہا ہے اس سے یقینا وطن عزیز کی معیشت مضبوط ہو گی۔ہر پہلی تاریخ کو ملک کا تنخواہ دار طبقہ خو ش ہوتا ہے کیونکہ اس کی جیب تنخواہ کے پیسوں سے گرم ہوتی ہے اور اگر کسی طبقے کا کوئی مذہبی تہوار یکم کے آس پاس پڑتا ہو اور کسی وجہ سے اسے تنخواہ نہ ملے تو اسے پریشانی ضرور ہوتی ہے اس لئے ہر محکمے کے سربراہ کو بھلے وہ نجی سیکٹر میں ہو یا سرکاری میں‘ اس ضمن میں اپنے ملازمین کی ضروریات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے‘ ایسٹر ہو کہ کرسمس‘ عیدین ہو کہ ہولی‘ یہ سب تہوار پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ امن و امان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایف سی میں نفری بڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ صوبوں میں تعینات ایف سی پلاٹونوں کو بار بار امن و عامہ کی ڈیوٹی پر پولیس کی معاونت کے واسطے ریونیو ڈسٹرکٹس نہ بھیجا جائے کہ اس عمل سے ان کی بنیادی ذمہ داری میں خلل پڑتا ہے‘ اس عمل کو صرف اس طریقے سے روکا جا سکتا ہے کہ پولیس کی استطاعت بڑھائی جائے اور ہر صوبہ اپنی اپنی پولیس فورس کی بھرتی میں خصوصاً نچلے کیڈرز میں بھرتی کا معیار بہتر کرے اور جس طرح افواج پاکستان کے نچلے کیڈرز میں جوان بھرتی کئے جاتے ہیں بالکل اسی طرز پر پولیس میں بھی صرف اور صرف میرٹ پر بھرتی ہو اور اس بھرتی میں کسی سیاسی مداخلت کی اجازت نہ دی جائے اور پھر ان کی ٹریننگ اور پبلک ڈیلنگ کو بھی بہتر کیا جائے تاکہ یہ اپنا کام خود بطریق احسن کر سکیں اور ضلعی انتظامیہ کو بار بار پولیس کی معاونت کے واسطے فرنٹیئر کور کی پلاٹونز کو نہ بلانا پڑے۔
سینما کلچر کے شیدائی اس زمانے کو یاد کرتے ہیں جب کہ جب وطن عزیز میں سینما گھروں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی‘گو کہ ایک نئے انداز میں سینما کلچر کی نشاۃ ثانیہ کی کوشش تو کی جا رہی ہے پر جب تک سینما کے ٹکٹوں کی قیمت میں مناسب کمی نہیں لائی جائے گی سینما بینوں کا رخ سینما گھروں کی طرف نہیں بدلے گا‘ پشاور شہر اور صدر کی ہی مثال لے لیجئے گا درجن سے زیادہ سینما گھر آباد تھے جن سے ہزاروں افراد کی روزی بھی جڑی ہوئی تھی‘ اب یہ سب کچھ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔