سائبر اٹیک کو جدید ترین دشت گردی قرار دیا جا سکتا ہے‘اب سائنس دانوں کو اس کا تریاق دریافت کرنا ہوگا‘اس دہشت گردی کو بھی اسرائیل نے ہی دنیا میں پھیلانے میں پہل کی ہے۔ہو سکتا ہے وطن عزیز کے کئی سیاسی حلقے پنجاب کی وزیراعلیٰ سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات رکھتے ہوں پر اس حقیقت سے کوئی بھی شاید اختلاف نہ کرسکے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد پنجاب کی وزارت عالیہ کا دفتر کافی متحرک ہو گیا ہے اور اس نے زندگی کے تقریباً تقریباًہر شعبہ میں عوام دوست ترقیاتی منصوبوں کا اجرا ء کیا ہے اگر پنجاب کی نوکر شاہی نے صدق دل سے ان منصوبوں کی مانیٹرنگ کی اور انہیں کرپشن کا شکار نہ ہونے دیا تو یہ اس صوبے کے عوام کی معاشی زندگی میں ایک خوشگوار خاموش انقلاب کے مترادف بات ہو گی۔گزشتہ کئی روز سے بعض سیاسی لیڈر اسلام آباد میں ایک دوسرے کی خاطر مدارت اپنی رہائش گاہوں پر پر تکلف عشائیوں اور ظہرانوں سے کر رہے ہیں جن پر ظاہر ہے لمبا چوڑا خرچہ اٹھتا ہوگا کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کھانے پینے کی دعوتوں کا اہتمام کس فنڈ سے کیا جاتا ہے اور کیا الیکشن کمیشن نے کوئی ایسا فول پروف آڈٹ کا نظام وضع کیا ہوا ہے کہ جس سے یہ پتہ چل سکے کہ سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کون کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے اور پھر اس نوازش کے بدلے میں ان کو سیاسی پارٹیوں کے سر براہان اقتدار میں آ کر ان کے احسانات کا بدلہ ان کو کس قسم کی مراعات دے کر اتارتے ہیں۔ملکی سیاست کی طرح عالمی سیاست بھی رنگ بدلتی رہتی ہے ایک دور تھا کہ جب امریکہ کی ایماء پر پاکستان افغان سوویت جنگ میں ماسکو کے خلاف نبرد آزما تھا اور آج یہ دور ہے کہ اگلے روز روس کا نائب وزیر اعظم اسلام آباد کے خیر سگالی کے دورے پر تھے‘روس کے ساتھ دوستی کو مزید گہرا بنانا ایک اچھی پیش رفت ہے اگر ہم چین اور روس دونوں کے ساتھ بنا کے رکھیں گے تو آج کے معروضی حالات میں یہ امر ہماری سلامتی کے واسطے بڑامفید ثابت ہو گا۔ امریکہ کی دوستی میں ہمیں فائدہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔
‘ وہ 1971ء میں پاکستان کو ٹوٹنے سے بچا سکتا تھا پر وہ ہماری مدد کو نہ آ یا‘حالانکہ اس کی خوشنودی کے لئے ہم نے کیا کچھ نہیں۔ کیا کمیونزم کے خلاف سرد جنگ میں ہم اس کے ہراول دستے میں تھے اپنی سرزمین پر ہم نے اسے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کرنے کے واسطے پشاور کے قریب ہوائی اڈہ تک فراہم کیا اور مفت میں ماسکو سے دشمنی مول لی‘اب تو ہماری آ نکھیں کھل جانی چاہئیں اور ہمارے حکمرانوں کو دوست دشمن کی پہچان ہو جانی چاہئے۔پاکستان کی معیشت کی مضبوطی کے واسطے دو اچھی خبریں یہ ہیں کہ چین کی مدد سے سب سے بڑے1200 میگا واٹ ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر شروع ہو گئی ہے اور دوسری خبر یہ ہے کہ روسی تعاون سے کراچی میں نئی اسٹیل مل بنانے کے لئے اراضی مختص کر دی گئی ہے۔بھارت میں اپوزیشن کانگریس پارٹی کا یہ اعلان حوصلہ افزا ہے کہ اگر اقتدار میں آئی تو وہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کر دے گی۔ چین کا یہ موقف سو فیصد درست ہے کہ تائیوان کو امریکی اسلحے کی فروخت ایک چین کے اصول کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ کہ چین امریکا تعلقات میں تائیوان پہلی سرخ لکیر ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا‘اس بات کا کریڈٹ بھی چین کو جاتا ہے کہ عالمی سطع پر ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی میں بھی دنیا میں چین سر فہرست ہے اور اس کا اعتراف امریکہ میڈیا کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔