دور اندیشی سے عاری قیادت 

دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور مسو لینی جیسے فاشسٹ لیڈروں اور ان کے حواریوں کے خاتمے کے بعد انگلستان اور اور امریکہ کی لیڈرشپ نے سٹالن اور اسکے سوویت یونین اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے کمیونسٹ ممالک کا تیا پانچہ کرنے کی ٹھانی‘امریکہ نے اس مقصد کیلئے کیا کیا جتن کئے‘ اس نے نیٹو کے نام سے ایک عسکری اتحاد قائم کیا تاکہ سوویت یونین نے اشتراکی ممالک کا وارسا پیکٹ نامی جو عسکری ادارہ تشکیل دیا گیا  ہے اس کا عسکری محاذ پر کوئی توڑ موجود ہو‘امریکہ کی ترجیحات میں سر فہرست سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرنا اور وسطی ایشیا کی تمام ریاستوں کو سوویت یونین کے چنگل  سے باہر نکال کر ان کی آ زاد اور خودمختیار حیثیت بحال کرنی تھی‘اس مقصد میں وہ اس لئے کامیاب ہوا کہ سوویت یونین میں لینن اور سٹالن کی انتقال کے بعد ایک لمبے عرصے تک جو قیادت بر سر اقتدار رہی وہ بڑی کمزور تھی اور اس میں وہ دم خم نہ تھا اور اس دور اندیشی اور معاملہ فہمی سے وہ عاری تھی جو لینن اور سٹالن کی شخصیات کا خاصہ تھیں‘ اس کا نتیجہ پھر یہ نکلا کہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اس دوران روس کے موجودہ صدر پیوٹن جو اس وقت سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے کرتا دھرتا تھے‘  تمام ماجرے کو سائیڈ لائن سے بغور دیکھ رہے تھے‘ وہ بڑے زیرک سیاستدان ہیں اور بڑے مضبوط اعصاب کے مالک بھی اور ایک عام محب وطن  روسی کی طرح ان کو سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کا رنج بھی بہت ہے  اور وہ سوویت یونین کی نشاۃ ثانیہ کے لئے جو بھرپور کوشش کر رہے ہیں‘روس کی ایک اکثریت اس وجہ سے ان کی بھرپور حمایت بھی کرتی ہے‘یہاں ایک بات قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد چین اور روس گو کہ دونوں کمیونسٹ ملک ہیں‘ پر آپس میں وہ سرد مہری کا شکار تھے اب کہیں جاکر کچھ عرصے پہلے  انہوں  نے یک جان دو قالب ہونے  کا مظاہرہ کیا ہے جس سے دنیا میں کمیونسٹ بلاک سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط ہوا ہے‘ جو امریکہ اور اس کے حواریوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور کبھی وہ یوکرائن تو کبھی تائیوان کی ہلہ شیری کر کے روس اور چین کے واسطے مسائل کھڑے کرتے رہتے ہیں‘سیاسی مبصرین کے مطابق سوویت یونین کے ٹوٹنے کی بڑی وجہ یہ بھی  تھی کہ اس نے کئی ممالک‘مثلاًافغانستان وغیرہ میں غیر ضروری عسکری مداخلت کرنی شروع کر دی تھی جو اس کے وسائل کو بری طرح کھا  گئی اور معاشی طور پر اس نے  اندر  ہی اندر سے کھوکھلا ہونا شروع کر دیا‘ سوویت یونین  نے کئی بیرونی ممالک میں جنگی محاذ کھول کر اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے۔ آج کل امریکہ بھی بالکل اسی طرح اپنی چادر سے بڑھ کر اپنے  پاؤں پھیلا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس کا حشر نشر بھی سوویت یونین جیسا ہو جائے اور وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے کیونکہ ایک عرصے سے اس کی قیادت   بھی غیر ممالک میں غیر ضروری طور پر مداخلت پر تلی ہوئی ہے‘اب وہاں بھی روزویلٹ‘جیفرسن ائزن ہاور جیسے نابغوں کی جگہ ٹرمپ جیسے  غیر سنجیدہ افراد صدر بن رہے ہیں  جن کی دور کی نظر کمزور ہے وہ نہ دور اندیشی ہیں اور نہ تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔حکومت نے اچھا کیا جو قومی ترانے کا احترام نہ کرنے پر افغان قونصل جنرل کی وضاحت کو عذر لنگ کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔ سکیورٹی حکام کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ فوج کی سیاسی وابستگی نہیں اور یہ کہ جب بھی صوبائی حکومت کہے گی‘ فوج لکی مروت سے واپس چلی جائے گی۔ وزیر اعظم کا یہ ارشاد سو فیصد درست ہے کہ  سی پیک ٹو پاک چین دوستی کی نئی بلندیوں پر لے جائے گا اور یہ کہ پاکستان تائیوان سمیت عالمی امور پر چین کی حمایت کرتا رہے گا‘ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ پاکستان روس کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتا ہے۔