ممنوعہ بور کے اسلحہ پر پابندی ناگزیر

نریندر مودی اور اس کی سیاسی پارٹی اس سیاسی پارٹی کی کوکھ سے نکلے ہیں کہ جس نے مہاتما گاندھی کو محض اس لئے موت کے گھاٹ اتارا تھا کہ وہ ان کی دانست میں ہندوستان کے مسلمانوں سے میانہ روی کے ساتھ پیش آ نے کی پالیسی پر گامزن تھے حالانکہ خدا لگتی یہ ہے کہ گاندھی بھی کوئی مسلمانوں کے دل سے خیر خواہ نہ تھے‘پر وہ ان کو’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘کے مصداق زہر کی میٹھی گولی سے مارنا چاہتے تھے جب کہ مودی کا تعلق اس سیاسی قبیلے سے ہے جو بھارت کے مسلمانوں کو ببانگ دہل کچل رہا ہے‘بھارت کی کانگریس پارٹی کے ابھرتے ہوئے جواں سال لیڈر راہول گاندھی کبھی داڑھی رکھ لیتے ہیں تو کبھی اسے منڈوا کر کلین شیو نظر آتے ہیں‘یہ پتہ نہیں چل رہا کہ ان کا اصلی چہرہ کونسا ہے‘ ویسے جس سیاسی پارٹی کی وہ قیادت کر رہے ہیں یعنی کانگریس پارٹی‘ وہ بھارت میں برسر اقتدار سیاسی پارٹی یعنی کہ بھارتی جنتا پارٹی کے خلاف ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھر رہی ہے اور اگلے الیکشن میں نریندرا مودی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ سوات میں غیر ملکی سفارت کاروں کے قافلے
 کے آ گے جانے والی پولیس وین پر اگلے روز جو حملہ ہوا ہے قابل تشویش ہے‘دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سکیورٹی مزید سخت کرنی ہوگی‘آج کل دنیا بھر کے ممالک  کے سربراہان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمع ہیں‘ اقوام متحدہ کو مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی بربریت کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات  اٹھانے ہوں گے۔اسرائیل کی دیکھا دیکھی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسند عوام کے ساتھ جو خون کی ہولی کھیل رکھی ہے اس کا فوری  سد باب بھی ضروری ہے‘ اسی طرح امریکہ کو تائیوان کی چین کے خلاف ہلہ شیری کرنے سے روکنا بھی ضروری ہے۔ اگر ان مسائل اور قضیوں کی طرف اقوام متحدہ نے بھرپور توجہ نہ دی اور ان کے حل کرنے میں تساہل سے کام لیا تو خدشہ یہ ہے کہ کہیں اقوام متحدہ کا بھی لیگ آف نیشنز جیسا حشر نہ ہو جائے اور اس کی طرح وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو جائے۔  ملک میں ممنوعہ بور کے بے دریغ استعمال سے قتل مقاتلے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں‘مقام حیرت ہے کہ حکومت ممنوعہ بور کے اسلحہ یعنی کلاشن کوف کو پرائیوٹ ہاتھوں میں استعمال پر پابندی کیوں نہیں لگاتی‘یہ اسلحہ تو صرف اور صرف افواج پاکستان‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے زیر استعمال ہو نا چاہیے پرائیویٹ ہاتھوں میں اس  کا ہونا امن کی تباہی کا موجب ہوگا۔یہ امر خوش آئند ہے کہ روس نے پاکستان کو پائپ لائن کے ذریعے ایل این جی دینے کی پیش کش کی ہے لیکن اس کے واسطے حکومت کو ایسی حکمت عملی پر عمل کرنا  ہو گا کہ وہ امریکی پابندیوں سے اپنی جان بچائے‘ وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کا کام ایک اچھا عمل ہے‘ آج ملک چونکہ معاشی بد حالی کا شکار ہے ارباب اختیار کے لئے حکومتی غیر ترقیاتی اخراجات میں حتی
 الوسع کمی کرنا ضروری  ہے‘وزیر اعظم نے مختلف وزارتوں کو جو ٹارگٹ دئیے ہیں ان کی مانیٹرنگ بڑی ضروری ہو گی اور اس ضمن میں وزارتوں کی سستی برداشت نہ کی جائے بلکہ اگر کوئی وزیر مقرر کردہ اہداف پورا کرنے میں ناکام ر ہے تو اس سے اس کی وزارت کا قلمدان واپس لے کر کسی اور اہل وزیر کے سپرد کردیا جائے۔ عالمی سیاست میں بہتر حکمت عملی سے آج دنیا میں اثرو نفوذ کے لحاظ سے چین کا غلبہ ہے لہٰذا ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ دنیا پر اب مغرب کی نہیں بلکہ مشرق کی حاکمیت آ نے والی ہے پاکستان کے تمام ووٹرز کو اس خبر کی طرف خاص دھیان دینا چاہئے کہ امریکہ کے نائب صدر کے عہدے کے ایک امیدوار ٹم والز،کے پاس ذاتی مکان نہیں ہے اور انہوں نے نہ ہی کسی بزنس میں انویسٹمنٹ کر رکھی ہے بطور گورنر ان کے پاس اربوں ڈالر کی منظوری دینے کا اختیار تھاپر وہ کئی پاکستانی ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی سے بھی غریب ہیں پاکستان میں بھی غلام اسحاق خان جیسے حکمران گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ایک پیسہ بھی نہ بنایا۔