دو منچلے آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے ایک بولا حیرت ہوتی ہے گرمی کے موسم میں ارباب اقتدار کو کوٹ پتلون پہنے ہوئے دیکھ کرکیا ان کو گرمی نہیں لگتی‘ دوسرا بولا بھائی وہ زمانہ کب کا لد چکا جب لوگ گرمی میں ڈھاکہ کی ململ کی بنی پوشاک زیب تن کیا کرتے تھے آج ائر کنڈیشنرز کا دورہے ٹھنڈے ٹھار کمروں میں ان لوگوں کو گرمی محسوس نہیں ہوتی جو کوٹ پتلون اور ٹائی زیب تن کئے ہوتے ہیں‘ نہج البلاغہ میں اسلام کے چوتھے خلیفہ کا یہ فرمان درج ہے کہ ہر روز خدا کا ایک فرشتہ یہ ندا کرتا ہے کہ تباہ ہونے کے لئے عمارتیں کھڑی کرو اور برباد ہو نے کیلئے دولت جمع کرو تو پھر بعض لوگ دھڑا دھڑ کروڑوں روپوں سے محل نما بنگلے کیوں تعمیر کر رہے ہیں‘کروڑوں روپوں کی مالیت کی ایک سے زیادہ گاڑیاں اپنے استعمال کے واسطے کیوں رکھتے ہیں اور دولت کے انبار جمع کر رہے ہیں اور ان غربا ء و مساکین کی ضروریات سے چشم پوشی کرتے ہیں‘ جو ان کے اطراف میں رہتے ہیں اور جو دو وقت کی روٹی کے لئے بھی محتاج ہیں۔ ان ابتدائی سطور کے بعد آئیے چند چیدہ چیدہ تازہ ترین واقعات کا احاطہ کر لیں۔ جلسوں کا انعقاد پارلیمانی جمہوریت کا تقاضا ہے گو کہ آج کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کے آ جانے کے بعد سیاسی لیڈر عوام سے سے اپنے دل کی بات الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بہتر انداز میں پہنچا سکتے ہیں پر جن سیاسی لوگوں کو جلسوں میں تقریر کرنے کا چسکا پڑا ہوا ہے وہ جلسوں کے انعقاد کو پسند کرتے ہیں۔ جو چیز البتہ ناقابل فہم ہے وہ یہ ہے کہ تمام سیاسی عمائدین آپس میں سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد ہر شہر میں اس مقصد کے واسطے باہمی اتفاق سے کوئی پارک یا چوک چن کیوں نہیں لیتے کہ جہاں پر وہ حسب ضرورت اپنے جلسے منعقد کیا کریں۔
جب وہ ان مقامات کو منتخب کر لیں تو اس کے بعد ہر شہر کی ضلعی انتظامیہ کو ان کی نشان دہی کر سکتے ہیں‘بہتر تو یہ ہے کہ وہ یہ جلسے عشا ء کی نماز کے بعد منعقد کیا کریں تاکہ عام آدمی کے معمولات زندگی ان کا کاروبار متاثر نہ ہو اور نہ ٹریفک جام سے خلقت خدا کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے‘ اس طریقہ کار سے جلسوں کے انعقاد کی جگہ کے بارے میں ضلعی انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان جو روزانہ مسئلہ کھرا ہوتا ہے وہ ختم ہو جائے گا‘