اگر ہم اپنے ملک پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہو گا کہ ہمارا کوئی بھی شعبہ زندگی کیوں نہ ہو وہ اس طرح چل نہیں رہا کہ جس طرح اس کا چلنا ضروری ہے‘اخلاقیات کا فقدان ہر جگہ نمایاں ہے کیا ہم میں سے ہر ایک کی یہ کوشش نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو کہنی مار کر آ گے نکل جائے‘ راتوں رات کروڑوں روپے کی گاڑی خرید لے اور شہر کے مہنگے ترین علاقے میں بنگلہ بنائے‘جس میں سنگ مرمر کا کثرت سے استعمال ہو‘ کیا والدین نے اپنے برسر روزگار بچوں سے یہ پوچھنے کی کبھی کوشش کی کہ جو اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں کہ یہ کروفر ان کو کیسے حاصل ہو رہا ہے‘کیا وہ زندگی کے مختلف امور میں اسراف نہیں کر رہے ؟کیا والدین نے اپنے بچوں کو صرف اعلیٰ تعلیم کے زیور سے ہی آراستہ کرنا اپنا فرض سمجھا ہے؟کیا ان کی نظر میں اخلاقیات کی تربیت کوئی اہمیت نہیں نہیں رکھتی؟مقام افسوس ہے کہ نے قابل پروفشنلز تو پیدا کر لئے پر کیا ہم نے اچھے انسان بھی پیدا کئے کہ نہیں۔اس سوال کا جواب نفی میں آ تا ہے‘ اس ملک میں روڈ ٹرانسپورٹ کا نظام اتنا غیر محفوظ ہو گیا ہے کہ خداکی پناہ‘روزانہ درجنوں لوگ ٹریفک حادثات میں لقمہ اچل ہو رہے ہیں‘اگر ملک کے مختلف شہروں کو ایک مربوط سرکاری بسوں کے سسٹم کے تحت منسلک کر دیا گیا ہوتا کہ جس طرح کسی دور میں خیبرپختونخوا کے اندر تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی پاکستان ریلوے کی طرف بھی دھیان دیا گیا ہوتا‘ جسے 1947 ء میں فرنگی بڑی اچھی حالت میں ہمارے لئے ورثے میں چھوڑ گئے تھے تو کیا ہی اچھا ہوتا‘ ہم کراچی میں چلنے والی ٹرام کی طرز پر ملک کے شہروں کے اندر ٹرام سسٹم بھی رائج کر سکتے تھے‘پر ہم نے تو اس چلتی پھرتی ٹرام کو ہی بند کر ڈالا‘ زیادہ دور کی بات نہیں بیس برس پہلے تک خیبرپختونخوا میں جی ٹی ایس نامی ایک بس سروس چلتی تھی‘جس کا طوطی بولتا تھا کیوں کہ اس میں اگر سفر محفوظ تھا تو دوسری طرف وقت کی پابندی مثالی تھی وہ عوام میں اتنی مقبول تھی کہ اس میں سفر کرنے کیلئے ثکث بمشکل ملا کرتے اور اس مقصد کے واسطے ایڈوانس بکنگ کروانا پڑتی تھی۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں کو ایک مربوط بس ٹرانسپورٹ سسٹم سے آپس میں منسلک کر دیا جائے اور یر صوبے کے اندر بھی اس قسم کا مربوط ٹرانسپورٹ کا نظام مرتب کیا جائے کیونکہ ہماری سڑکوں پر چلنے والی بسیں ان کے مالکان کی لالچ کے پیش نظر موت کے کنوؤں سے کم نہیں ہیں‘ ان کے مالکان ڈرائیوروں سے بیگار لیتے ہیں ان کو مناسب جسمانی اور ذہنی آرام کے واسطے وقت نہیں دیتے جس کا پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نیند کے غلبے سے بچنے کے واسطے ڈرائیونگ کے دوران نشہ کرتے ہیں اور اس طرح روڈ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بھلے کوئی مانے یا نہ مانے پر یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے عوامی بہبود کے لاتعداد منصوبوں پر بیک وقت عمل درآمد شروع کیا ہوا ہے‘ اب وہ چین کی دعوت پر بیجنگ جا رہی ہیں‘ انہوں نے اگر اپنے صوبے کی معیشت کو چینی ماڈل پر تشکیل دے دیا کہ جس کا عندیہ اگلے روز انہوں نے دیا ہے اس سے پنجاب کی معیشت کو زبردست تقویت ملے گی۔ قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ چین نے تھوڑے عرصے پہلے 2 کروڑ چینیوں کو جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے‘ اس لکیر سے باہر نکالا اب اگر مریم نواز اس معاشی ماڈل کو پنجاب میں رائج کرتی ہیں تو یہ ان کی حکومت کی بے مثال کامیابی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔