اسراف سے گریز

بہلول دانا عباسی بادشاہ ہارون رشید کا قریبی رشتہ دار تھا پر مجذوب انسان تھا اور ہارون رشید کے منہ پر کھری کھری بات کر دیتا تھا ایک مرتبہ ہارون اپنے نئے تعمیرشدہ محل کے سامنے کھڑا تھا کہ بہلول دانا کا ادھر سے گزرہوا اس نے بہلول سے کہا میرے اس نئے محل کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے‘ بہلول نے کہا کہ اگر اس میں ایک خامی نہ ہو تو یہ لاجواب ہے‘جس پر ہارون نے اس سے پوچھا بتا تو بھلا کیا خامی ہے اس پر بہلول نے کہا، اگر تم نے یہ حرام کی دولت سے بنایا ہے تو تم خیانت کے مرتکب ہوئے ہو اور اگر رزق حلال سے اسے تعمیر کیا ہے تو تم نے اسراف کیا ہے‘آج وطن عزیز میں مہنگائی کی وجہ سے جو معاشی صورتحال ہے‘اس کے تناظر میں ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ اسراف سے گریز کریں‘۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں کو ایک مربوط بس ٹرانسپورٹ سسٹم سے آپس میں منسلک کر دیا جائے  اور ہر صوبے کے اندر بھی اس قسم کا مربوط ٹرانسپورٹ کا نظام مرتب کیا جائے کیونکہ ہماری سڑکوں پر چلنے والی بسیں ان کے مالکان کی لالچ کے پیش نظر موت کے کنوؤں سے کم نہیں ہیں‘ ان کے مالکان ڈرائیوروں کو مناسب جسمانی اور ذہنی آرام کے واسطے وقت نہیں دیتے جس کا پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نیند کے غلبے سے بچنے کے واسطے ڈرائیونگ  کے دوران نشہ کرتے ہیں اور  اس طرح روڈ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بھلے کوئی مانے یا نہ مانے پر یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے عوامی بہبود کے لاتعداد منصوبوں پر بیک وقت عمل درآمد شروع کیا ہوا ہے‘ اب وہ چین کی دعوت پر بیجنگ  جا رہی ہیں‘ انہوں نے اگر اپنے صوبے کی معیشت کو چینی ماڈل پر تشکیل دے دیا کہ جس کا عندیہ اگلے روز انہوں نے دیا ہے اس سے پنجاب کی معیشت کو زبردست تقویت ملے گی۔ 

قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ چین نے  تھوڑے عرصے  پہلے 2 کروڑ چینیوں کو جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے‘ اس لکیر سے باہر نکالا اب اگر مریم نواز اس معاشی ماڈل کو پنجاب میں رائج کرتی ہیں تو یہ ان کی حکومت کی بے مثال کامیابی ہو گی۔