ٹیکس نیٹ اور اشرافیہ 

لکھاری تو ایک عرصے سے لکھ لکھ کر تھک ہار چکے کہ ان لوگوں پر بھاری بھر کم ٹیکس لگایا جاے جو کئی کئی کنالوں پر محیط بنگلوں میں رہتے ہیں جن کو انہوں نے فارم ہاﺅسزکا نام دے رکھا ہے جن کے بنگلوں کے پورچ میں کروڑوں روپوں کی مالیت کی کئی کئی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں ‘جو ہر سال بزنس کلاس میں یورپ امریکہ اور امارات کے کئی کئی چکر لگاتے ہیں ‘جن کے بچے ان سکولوں میں پڑھتے ہیں کہ جن کی فیس ڈالروں میں وصول کی جاتی ہے اس قسم کے تمام اخراجات ڈاکومنٹڈ documentedہیں‘ یعنی ان کا تحریری ثبوت موجود ہے جن کی بنیاد پر فوراً سے پیشتر ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکتا ہے ‘ان پر ٹیکس لگانے کے لئے کسی لمبی چوڑی انکوائری کی ضرورت نہیں ہے متعلقہ مواد اور ثبوت موجود ہیں صرف ارباب اقتدار کی قوت ارادی will powerدرکار ہے ۔شکر ہے کہ اب اگلے روز وزیر خزانہ نے کچھ اس قسم کی بات تو ضرور کی ہے کہ ان لوگوں پر ٹیکس لگایا جائے گا‘ خدا کرے کہ یہ بات وعدہ فردا ثابت نہ ہو۔پاکستان ائر فورس کا انجینئرنگ کاشعبہ مبارک باد کا مستحق ہے کہ آ ذر بائیجان نے
 اس کے تیار کردہ JF۔17 طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے اس کثیر المقاصد طیارے کے بارے میں آ زر بائیجان کے صدر کے پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران ان کوبریفنگ دی گئی تھی اور وہ اس کی صلاحیتوں سے مثاتر ہوے تھے۔ وزیر اعظم نے اگلے روز اقوام متحدہ کے سامنے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ افغانستان کو فتنہ الخوارج کو ختم کرنا ہوگا ‘اسی طرح فلسطین میں اسرائیلی افواج کی جارحیت اور کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت بھی دو ایسے مسائل ہیں کہ جن سے عالمی امن کے تاراج ہونے کا سخت خطرہ ہے ۔پہلی جنگ عظیم کے بعد جب لیگ آف نیشنز اس وقت کی سپر پاورز کی ہٹ دھرمی کے آ گے بے بس ہو کر فیل ہونے لگی تو اس امید کے ساتھ اقوام متحدہ کا وجود تشکیل دیا گیا کہ دنیا کو پھر پہلی جنگ عظیم کی طرح کسی دوسری مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے ‘پر کچھ عرصے سے اقوام متحدہ کو بھی جیسے لیگ آف نیشنز کی ہوا لگ گئی ہو‘ کیونکہ دنیا میں کئی جگہوں پر وہ امن کے قیام میں بے بس اور نا کام نظر آ رہی ہے اور خدشہ یہ ہے کہ اس کا انجام بھی کہیں لیگ آف نیشنز کی طرح نہ ہو جائے‘ اس کو مفلوج کرنے میں امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کا زیادہ ہاتھ نظر آ رہا ہے ‘وہ ایک طرف تو اسرائیل کے ہاتھوں میں کھیل کر فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش ہے تو دوسری طرف روس کے خلاف یوکرائن کی ہلہ شیری کر رہا ہے‘ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی وہ چین کے خلاف تائیوان کی بھی ہلہ شیری میں مصروف ہے ۔آج وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں کو ایک مربوط بس ٹرانسپورٹ سسٹم سے آپس میں منسلک کر دیا جائے اور یر صوبے کے اندر بھی اس قسم کا مربوط ٹرانسپورٹ کا نظام مرتب کیا جائے کیونکہ
 ہماری سڑکوں پر چلنے والی بسیں ان کے مالکان کی لالچ کے پیش نظر موت کے کنوﺅں سے کم نہیں ہیں‘ ان کے مالکان ڈرائیوروں کو مناسب جسمانی اور ذہنی آرام کے واسطے وقت نہیں دیتے جس کا پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نیند کے غلبے سے بچنے کے واسطے ڈرائیونگ کے دوران نشہ کرتے ہیں اور اس طرح روڈ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بھلے کوئی مانے یا نہ مانے پر یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے عوامی بہبود کے لاتعداد منصوبوں پر بیک وقت عمل درآمد شروع کیا ہوا ہے‘ اب وہ چین کی دعوت پر بیجنگ جا رہی ہیں‘ انہوں نے اگر اپنے صوبے کی معیشت کو چینی ماڈل پر تشکیل دے دیا کہ جس کا عندیہ اگلے روز انہوں نے دیا ہے اس سے پنجاب کی معیشت کو زبردست تقویت ملے گی۔ قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ چین نے تھوڑے عرصے پہلے 2 کروڑ چینیوں کو جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے ‘ اس لکیر سے باہر نکالا اب اگر مریم نواز اس معاشی ماڈل کو پنجاب میں رائج کرتی ہیں تو یہ ان کی حکومت کی بے مثال کامیابی ہو گی۔