موسمیاتی تبدیلی اور موسمی بیماریاں 

آج کے کالم کی ابتدا ء قومی اور عالمی معاملات کے ایک مختصر سے جائزہ کے ساتھ کرتے ہیں‘ آج کی سپر پاورز میں سوائے چین کے اور کوئی بھی اقوام متحدہ کی قرا ردادوں کو گھاس نہیں ڈال رہا تب ہی تو فلسطینیوں کی اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی ہو رہی ہے اور کشمیر میں حریت پسندوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔اب تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل ایک منظم سازش کے تحت مشرق وسطیٰ میں تمام اہل  تشیع کی قیادت کو چن چن کر ختم کر رہا ہے۔ حسن نصراللہ کی حالیہ شہادت اسی سازش کی ایک کڑی تھی۔وطن عزیز کے باسی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مختلف موسمی بیماریوں جیسا کہ اسہال  اور ملیریا کا شکار ہوتے جا رہے ہیں‘اسوج کا مہینہ آ دھے سے زیادہ بیت چکا‘ یہ  ماہ سردی کے موسم کی ابتدا ء کی نوید دیا کرتا تھا‘ پر ابھی تک گرمی اور حبس کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔بلوچستان میں حالیہ  واقعات میں ملوث مجرموں کو اگر  قرار واقعی سزانہیں دی  جائے گی تو یقین مانئے ان کا خاتمہ ناممکن ہوگا۔مزدوری کرنے والے افراد کو ایک منظم سازش کے تحت موت کے گھاٹ اس لئے اتارا جا رہا ہے تاکہ دوسرے صوبوں کے عوام میں بلوچستان کے عوام کے خلاف نفرت پھیلے۔قومی ائر لائنز کی اکثر پروازیں اچانک فنی خرابیوں کا شکار ہوکر بڑے فضائی حادثوں کے رونما ہوئے سے بچ رہی ہیں‘ اگلے روز مسقط سے پشاور آنے والی ائر بس کا اچانک ہائی ڈرالک سسٹم فیل ہوا اور اسے کراچی ائر پورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی‘ اس قسم کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ قومی ائر لائن کس قدر زبوں حالی کا شکار ہے؟۔ جب تک ملک کی نئی نسل کتب بینی کی طرف مائل نہ ہوگی یا اس کو اس طرف مائل نہیں کیا جائے گا۔

‘ یہ ملک زندگی کے کسی  بھی میدان میں آ گے نہیں بڑھ سکے گا‘ماہرین تعلیم کو ملک میں لائبریری کلچر کو فروغ دینے کیلئے خصوصی توجہ دینا ہوگی۔  پنجاب کی وزیر اعلیٰ  جو زندگی کے مختلف شعبوں میں تیزی اور دلجمعی سے اختراعی کام کر رہی ہیں‘کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی کہ وہ پنجاب کی سطح پر لائبریری کلچر کے فروغ کے واسطے کوئی منصوبہ شروع کریں‘ شاید ان کی  دیکھا دیکھی  اس ضمن میں دیگر صوبے بھی پھر  اس سلسلے میں مناسب اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائیں۔ 1960ء کی دہائی تک پرانے سیاست دانوں کا یہ شیوہ تھا کہ وہ کسی مسئلے پر حکومت وقت کے خلاف احتجاج کرتے تو عشاء کی نماز کے بعد شہر کے کسی مرکزی مقام پر جلسہ عام منعقد کرتے جو رات گئے تک جاری  رہتا‘ نہ ٹریفک میں خلل پڑتا اور نہ ٹریفک جام سے لوگوں کے معمولات زندگی  متاثر ہوتے یہ جلسے چوک یادگار پشاور‘ لیاقت باغ پنڈی‘موچی گیٹ لاہور وغیرہ   جیسے مرکزی  مقامات پر منعقد ہوتے‘آج کل تو بات بات پر یہ لوگ ہجوم اکٹھا کرنے کیلئے سڑکوں کے وسط میں کھڑے ہو کر تقریریں شروع کر دیتے ہیں جو راہ گیروں کیلئے درد سر بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔