حکومت نے آئی ایم ایف پیکیج ملنے کے بعد ڈومیسٹک قرضوں کی ری پروفائلنگ شروع کردی۔
حکومت ملکی مالیاتی اداروں سے لیے گئے مہنگے قلیل المدتی قرضے واپس کرکے نسبتا کم شرح سود کے ساتھ طویل المدتی قرض لینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، اس کے علاوہ دسمبر 2024 کے اختتام تک ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو 50 فیصد تک بڑھانے میں ناکام رہنے والے بینکوں پر 19 فیصد اضافی ٹیکسوں کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے پیر کو اپنے جاری کردہ شارٹ ٹرم مارکیٹ ٹریژری بلز واپس خرید کر تجارتی بینکوں کو 351 ارب روپے واپس کر دیے ہیں، اور بدھ کو اکتوبر تا دسمبر کے تین ماہ کے دوران 10.10 ہزار ارب روپے کے مزید قرض حاصل کرنے کا علان کیا ہے۔
یہ قرض 2 سے 30 سالہ مدت کے لانگ ٹرم پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز فروخت کرکے حاصل کیا جائے گا، جبکہ حکومت نے 3 سے 12 ماہ کے قلیل المدتی ٹی بلز ریٹائر کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے عارف حبیب لمیٹڈ کی ماہر معیشت ثنا توفیق نے کہا کہ حکومت نے اپنی مالی حیثیت مستحکم ہونے کے بعد ڈومیسٹک قرضوں کی ری پروفائلنگ شروع کیا ہے، جس کا بنیادی مقصد زیادہ شرح سود والے اور قلیل المدتی قرضوں سے چھٹکارا پانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے قرضوں کی واپسی کے بعد بینکوں کی لیکویڈیٹی میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد حکومت کیلیے بینکوں سے کم شرح سود پر قرض حاصل کرنے میں آسانی ہوگی، جبکہ طویل المدتی قرضوں کی صورت میں حکومت کو اپنی ٹیکس پالیسیوں پر عمل کرنے میں بھی سہولت ملے گی، جبکہ مہنگائی میں نمایاں کمی سے بھی بینکوں کو دباؤ کا سامنا ہوگا، امکان ہے کہ نومبر میں اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں مزید 150 بیسس پوائنٹس کی کمی کرے گا۔