مشرق وسطیٰ کی صورتحال 

کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تنازعے کا فائدہ اٹھا کر ہو سکتا ہے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو کہیں نشانہ نہ بنادے‘آئندہ دو تین دن میں پتہ چل جائے گا کہ کیا ایران اور اسرائیل کا یہ تنازعہ دم توڑتا ہے یا مزید زور پکڑتا  ہے‘اسرائیل کی اس سے زیادہ بھلا اور زیادہ خود سری کیا ہو سکتی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی لگادی ہے کیونکہ انہوں نے اسرائیل پر ایران کے حملے کی مذمت نہیں کی‘اسرائیل کی اس دیدہ دلیری پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘امریکہ اسرائیل  کا سیاں ہے اسلئے اسکو بھلا اب ڈر کس کا ہو سکتا ہے‘بیروت میں صرف مسلمان ہی نہیں رہتے وہاں ایک اچھی خاصی تعداد میں عیسائی بھی آباد ہیں اس وقت اسرائیل اور ایران کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے جس سے بیروت اور لبنان کے دوسرے علاقے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں‘ امریکہ نے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے اب کی دفعہ کھلم کھلا کہہ دیا ہے کہ وہ اس جنگ میں اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے‘اب تو ان اسلامی ممالک کے کرتا دھرتاؤں کو عقل آ جانی چاہیے اور انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ جو امریکہ کی ڈگڈگی پر آج بھی ناچ رہے ہیں۔ 1960ء کے عشرے میں جو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ ہوئی تھی اس پر The six day war کے عنوان تلے ایک کتاب لکھی گئی تھی  جو  شہرہ آفاق مرحوم برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کے پوتے نے لکھی تھی اور اس میں انہوں نے واضح طور پر اس بات کا عندیہ دیا تھا کی اسرائیلی اپنی فوج اور دفاع کو مضبوط کر کے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
کیونکہ وہ اپنی موجودہ سر حدات کو اپنے لئے غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
 کاش کہ مشرق وسطیٰ کے کھرب پتی حکمرانوں نے  اپنی لاتعداد دولت کواپنی عیاشی اور اللے تللوں پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی افواج کو آج کے دن کے لئے تیار کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔