ایک اچھی تجویز 

مولانا فضل الرحمان صاحب کی اس تجویز سے کافی لوگ اتفاق کریں گے کہ مشرق وسطیٰٰ میں اسرائیلی بربریت کو روکنے کا واحد حل یہ ہے کہ سعودی عرب پہل کرکے تمام عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے‘ اس سے پہلے پاکستان کے دورے پر آ ئے ہوے اسلامی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی کچھ اسی قسم کی تجویز پیش کی تھی‘ان کی یہ تجویز کافی وزنی ہے کہ اگر نیٹو کی طرح تمام اسلامی ممالک ایک بلاک تشکیل دے دیں تو اس صورت میں پھر اسرائیل فلسطینیوں پر اس قدر مظالم نہیں ڈھا سکتا کہ جتنا وہ اب ڈھا رہا ہے‘یاد رہے کہ نیٹو 57  ممالک کا ایک عسکری اتحاد ہے‘ اس کے اگر ایک ملک پر باہر سے کوئی حملہ کرتا ہے تو وہ تمام نیٹو ممالک پر حملہ تصور ہوتا ہے‘ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اگر دنیا کے تمام اسلامی ممالک اسی قسم کے کسی اتحاد کو تشکیل دے دیں تو وہ کتنی عظیم قوت کے مالک بن سکتے ہیں‘ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت امت مسلمہ میں کوئی ایسا لیڈر یا ایک سے زیادہ ہم خیال لیڈرز موجود ہیں جو اس خیال کو عملی جامہ پہنا سکیں‘ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور مولانا فضل الرحمان صاحب کی یہ تجاویز بادی النظر میں یوں تو بہت صائب ہیں پر بات ان پر عمل درآمد کی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کب چاہے گا کہ ایسا ہو اور بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ خدا لگتی یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں تو کوئی ایسا رہنما دکھائی نہیں دیتا کہ جو زیڈ اے بھٹو یا جمال عبدالناصر یا امام خمینی‘ شاہ فیصل یا سوئیکارنو یا قذافی کے سیاسی قدو قامت کا ہو اور جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتاہو‘ تاریخ گواہ ہے ماضی میں جس کسی بھی ملک کے کسی لیڈر نے امریکہ کی طے کردہ عالمی پالیسی سے انحراف کیا انکل سام نے اسے ایوان اقتدار میں رہنے ہی نہ دیا‘ زیڈ اے بھٹو جمال عبدالناصر‘ کرنل قذافی سوئیکارنو‘کاسٹرو‘شاہ فیصل وغیرہ کا انجام دنیا کے سامنے ہے۔ایک منچلے نے ہمیں ای میل کے ذریعے درج ذیل چشم کشا سوالات ارسال کئے ہیں جن کے جوابات کم ازکم ہمارے پاس تو نہیں ہیں چونکہ وہ ہم سب کے لئے فکر انگیز ہیں ان کوہم اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے ہیں‘سوالات یہ ہیں‘ کیا اس ملک کے لوگوں کو زیب دیتا ہے کہ وہ کروڑوں روپوں کی قیمتی گاڑیوں میں گھومیں یا کروڑوں کی مالیت کے بنگلوں میں زندگی گزاریں کہ جس کے لوگ گداگری کے واسطے عمرے اور حج کے ویزے لگوا کر سعودی عرب جائیں‘جس کی سڑکوں پر خواتین شیر خوار بچوں کو گود میں اٹھاے راہ گیروں کے آگے ہاتھ بھیلائے بھیک مانگیں‘جس کے عوام ادویات نہ ملنے کی وجہ سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیں‘جس ملک میں اب تک کروڑوں غربت کی لکیر سے نیچے والی زندگی گزار رہے ہوں‘ جس ملک میں معدودے چند لوگوں کے بال بچے تو ان سکولوں میں زیر تعلیم ہوں کہ جن کی فیس ڈالروں میں ادا کی جاتی ہو اور اکثریت ان بچوں کی ہو کہ جن کو ٹاٹ پر بٹھا کر پڑھایا جاتا ہو؟ ان جملہ ہاے معترضہ کے بعد اس کالم کے عنوان کی طرف اب آتے ہیں پنچاب میں زندگی کا شایدہی کوئی ایسا شعبہ ہو گاکہ جس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے اصلاحات کا بیڑہ نہ اٹھایا ہو‘ اکثر جس برق رفتاری سے وہ مختلف سرکاری محکموں کے دفاتر کی اچانک چیکنگ کے لئے نکل کھڑی ہوتی ہیں ان کو دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور آفرین کہنے کا دل بھی کرتا ہے اور اس بات کا احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ صدق دل سے چاہ رہی ہیں کہ بیوروکریسی ڈلیور کرے‘ خدا لگتی یہ ہے کہ وہ جو مختلف سرکاری محکموں کی کارکردگی جانچنے کے واسطے ان پر چھاپے مار رہی ہیں یہ کام تو اسسٹنٹ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنرز کاہوتا ہے‘ بہتر ہو گا‘ اگر وہ ان کے کان کھینچیں کہ وہ ذرا متحرک ہو جائیں تاکہ وزیر اعلیٰ کو اپنے صوبے کے دیگر اہم پالیسی امور نبٹانے کیلئے ضروری وقت میسر آ سکے۔ اب آتے ہیں بعض دیگر غور طلب امور کی طرف جن کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔