خوش قسمت ہیں وہ ممالک جن میں کیمیسٹوں کی دکانیں کم ہوتی ہیں اور لائبریریوں کی تعداد زیادہ‘جن میں کاروں کی تعداد کم ہوتی ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرام سسٹم کا ایک مربوط جامع نظام موجود ہوتا ہے۔ ملک کے موسم میں ہفتہ کے دن کی بارش کے بعد کافی فرق پڑ چکا ہے‘ راتیں سردہو چکی ہیں‘ ٹھنڈ پڑ گئی ہے لوگوں نے چادریں اوڑھنا شروع کر دی ہیں محکمہ موسمیات والے تو کہہ رہے ہیں امسال غضب کا پالا پڑے گا‘ اب دیکھئے آ گے کیا ہوتا ہے‘ابھی تک تو انہوں نے جتنی بھی پیشن گوئیاں کی ہیں ان میں 75 درست ثابت ہوئی ہیں۔وطن عزیز میں سگریٹ نوشی تو زیادہ ہو ہی رہی ہے پر اس کے ساتھ ساتھ مسوڑھوں اور دانتوں کے درمیان نسوار رکھنے کا عمل بھی بڑھ رہا جس سے جبڑے اور منہ کے کینسر کی بیماری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان چند ابتدائی کلمات کے بعد اہم قومی اور عالمی امور کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔گزشتہ دو دنوں سے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھ رھی ہے اگر اس میں کمی نہ آ ئی تو یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل ایران کی تیل اور ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دے جو پھر سپر پاورز کو تیسری عالمگیر جنگ میں دھکیل سکتا ہے‘اس قضیے میں اب تک تو چین نے امریکہ کے برعکس کافی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بندوبستی علاقوں یعنی ریونیو ڈسٹرکٹس میں سول انتظامیہ کو امن عامہ برقرار رکھنے کے لئے جب بھی اضافی فورسز کی مدد درکار ہوتی ہے تو متعلقہ ضلع کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ وزارت داخلہ کی وساطت سے خیبر پختونخوا سے فرانٹیئر کور یعنی ملیشیا اور فرانٹیئر کانسٹیبلری یعنی بارڈر فورس کے دستے منگوا لیتا ہے جس کا منفی پہلو یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں جس قسم کی ڈیوٹی کے لئے ان کو بھرتی کیا گیا ہے وہ متاثر ہو جاتی ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر سندھ اور پنجاب یا اسلام آباد میں پولیس کی نفری کم ہے تو متعلقہ ادارے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اپنے اپنے بندوبستی علاقوں میں ضروری پولیس کی بھرتی کیوں نہیں کرتے تاکہ روز روز ان کو ملیشیا اور بارڈر کی پلاٹونوں و قبائلی علاقوں سے بلانا نہ پڑے اور اس سے قبائلی علاقے کے اندر ملیشیا اور بارڈرفورس کی اپنی معمول کی ڈیوٹی متاثر نہ ہو‘ ملیشیا اور بارڈرز کو بار بار چھیڑنے سے بلا شبہ ان کی اپنی بنیادی ڈیوٹی متاثر ہوتی ہے۔جرمنی میں حکمران وقت کو چانسلر کہتے ہیں‘انجیلہ مارکل نامی ایک خاتون 16 برس جرمنی کی چانسلر رہی ہیں۔وطن عزیز کے تمام باسی بھلے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی کی سوچ سے مطابقت کیوں نہ رکھتا ہو وہ ذرا جرمنی کی اس سابقہ چانسلر کے طرز زندگی پر غور سے نظر ڈالیں‘کیا ان کی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں میں وہ خاصیتیں موجود ہیں کہ جو مندرجہ بالا جرمن چانسلر میں تھیں‘اپنے دور اقتدار میں انہوں نے اپنے کسی رشتے دار کو کسی بھی حکومتی عہدے پر تعینات نہیں کیا‘وہ اتنی سادہ تھیں کہ انہوں نے نہ رئیل اسٹیٹ real estate کام کیا اور نہ کبھی سرکاری استعمال کے واسطے قیمتی کاریں خریدیں یاپلاٹ اپنے نام الاٹ کروائے انہوں نے اپنے استعمال کے واسطے نجی طیارے نہیں خریدے۔ حال ہی میں جب ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے ان سے یہ سوال کیا کہ ہمیں احساس ہے آپ نے وہی سوٹ پہنا ہوا ہے جو آپ اقتدار کے دنوں میں پہنتی تھیں‘کیا اس سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ آپ کے پاس دوسرا سوٹ نہیں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا میں حکمران تھی ماڈل نہیں تھی‘ریٹائرمنٹ کے بعدانجیلہ مارکل دوسرے عام جرمن شہریوں کی طرح ایک عام سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔چین کے ماؤزے تنگ‘شمالی ویت نام کے ہوچن من‘کیوبا کے فیڈل کاسترو‘ تنزانیہ کے جولیس نیانارے اور جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا نے جو طرز زندگی اپنایا تھا‘ اس پر بھی اگر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو رشک آتا ہے‘ان ممالک کے عوام کی تقدیر پر کہ جن کو قدرت نے اس قدر غریب پرور عوام دوست اور دیانتدار لیڈر عطا کئے تھے‘ یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا لیڈر دنیا کے تمام ممالک کے غریب عوام کی آنکھ کا تارہ بن گئے ہیں‘جو سیاح چین گئے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ بیجنگ میں واقع ما ؤ زے تنگ کی mummyحنوط شدہ نعش کو جوکہ ایک شیشے کے کھلے منہ والے بکس میں ایک ہال کے اندر پڑی ہے‘روزانہ ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح ایک نظر دیکھنے جاتے ہیں۔
‘حیرت بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی کہ وطن عزیز کو قائد اعظم‘قائد ملت اور سردار عبدالرب کے بعد ان جیسے اوصاف رکھنے والی قیادت نصیب ہوئی اور نہ علامہ اقبال کی سوچ کو کسی نے عملی طور پروان چڑھایا محض زبانی جمع خرچی کے۔