خونی انقلاب کامیابی کے بعد سب سے پہلے انقلابیوں کو ہی کھاتا ہے ‘تاریخ کا مطالعہ تو کم از کم یہی بتاتا ہے‘ انقلابی پرانے نظام کو جڑ سے تو اکھاڑ دیتے ہیں پر وہ اس کی جگہ کوئی بہتر متبادل نظام تشکیل نہیں کر پاتے کیونکہ موجودہ نظام کو وہ بگاڑنے میں تگڑے ہوتے ہیں پر اس کی جگہ بہتر متبادل نظام وہ بنا نہیں پاتے ۔ امریکہ یا چین کے انقلاب کی البتہ بات اور تھی وہاں کے انقلابیوں نے پرانے فرسودہ استحصالی نظام کو اگر اکھاڑا تو پھر اس کی جگہ ایک بہتر نظام اپنی قوم کو دیااور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں انقلاب کرنے والے ریفامرز بھی تھے‘ محض سستی شہرت حاصل کرنے والے انقلابی نہیں‘ انقلاب فرانس جس کا بہت چرچا کیا جاتا ہے وہاں کیا ہوا‘ انقلاب تو آیاپر بعد از خرابی بسیار انجام کار جب حکومت نپولین کے ہاتھ لگی تو کچھ بات بنی‘ خوش نصیب تھے وہ انقلابی ذہن رکھنے والے لوگ جن کو قدرت نے ماﺅزے تنگ‘ ہو چن من ‘امام خمینی ‘سوئیکارنو‘ قذافی ‘جمال عبد الناصراور کاستروجیسے رہنما میسرکئے‘جو اپنے قول کے پکے تھے اور جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں انقلاب کی قیادت کے بعد وہاں استحصالی طبقوں سے غریب عوام کی جان چھڑائی ۔ان ابتدائی کلمات کے بعد جرمنی کی ایک سابقہ حکمران کا بھی تذکرہ بے جا نہ ہو گا‘ جرمنی میں حکمران وقت کو چانسلر کہتے ہیں‘انجیلہ مارکل نامی ایک خاتون 16 برس جرمنی کی چانسلر رہی ہیں۔وطن عزیز کے تمام باسی بھلے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی کی سوچ سے مطابقت کیوں نہ رکھتا ہو وہ ذرا جرمنی کی اس سابقہ چانسلر کے طرز زندگی پر غور سے نظر ڈالیں ‘کیا ان کی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں میں وہ خاصیتیں موجود ہیں کہ جو مندرجہ بالا جرمن چانسلر میں تھیں ‘اپنے دور اقتدار میں انہوں نے اپنے کسی رشتے دار کو کسی بھی حکومتی عہدے پر تعینات نہیں کیا۔
‘وہ اتنی سادہ تھیں کہ انہوں نے نہ رئیل اسٹیٹ real estate کام کیا اور نہ کبھی سرکاری استعمال کے واسطے قیمتی کاریں خریدیں یاپلاٹ اپنے نام الاٹ کروائے انہوں نے اپنے استعمال کے واسطے نجی طیارے نہیں خریدے۔ حال ہی میں جب ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے ان سے یہ سوال کیا کہ ہمیں احساس ہے آپ نے وہی سوٹ پہنا ہوا ہے جو آپ اقتدار کے دنوں میں پہنتی تھیں ‘کیا اس سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ آپ کے پاس دوسرا سوٹ نہیں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا میں حکمران تھی ماڈل نہیں تھی ‘ریٹائرمنٹ کے بعدانجیلہ مارکل دوسرے عام جرمن شہریوں کی طرح ایک عام سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں ‘اگر آپ چین کے ماﺅزے تنگ ‘شمالی ویت نام کے ہوچن من ‘کیوبا کے فیڈل کاسترو‘ تنزانیہ کے جولیس نیانارے اور جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا نے جو طرز زندگی اپنایا تھا‘ اس پر بھی اگر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہیں تو رشک آتا ہے ‘ان ممالک کے عوام کی تقدیر پر کہ جن کو قدرت نے اس قدر غریب پرور عوام دوست اور دیانتدار لیڈر عطا کئے تھے‘ یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا لیڈر دنیا کے تمام ممالک کے غریب عوام کی آنکھ کا تارہ بن گئے ہیں ‘جو سیاح چین گئے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ بیجنگ میں واقع ما ﺅ زے تنگ کی mummyحنوط شدہ نعش کو جوکہ ایک شیشے کے کھلے منہ والے بکس میں ایک ہال کے اندر پڑی ہے ‘روزانہ ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح ایک نظر دیکھنے جاتے ہیں ‘حیرت بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی کہ وطن عزیز کو قائد اعظم ‘قائد ملت اور سردار عبدالرب کے بعد ان جیسے اوصاف رکھنے والی قیادت نصیب ہوئی اور نہ علامہ اقبال کی سوچ کو کسی نے عملی طور پروان چڑھایا محض زبانی جمع خرچی کے ۔