اخلاقیات کا فقدان 

عالمی یوم اساتذہ کے موقع پر اگلے روز صدر زرداری نے بالکل بجا کہا کہ اساتذہ کو طلبہ کی اخلاقی تربیت کرنی چاہیے‘ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے تو  آ راستہ کر رہے ہیں پر اخلاقیات سازی میں ہماری کارکردگی صفر ہے اس ضمن میں پرائمری ایجوکیشن سب سے اہم جز ہے‘ یہاں پر ہم کو دو واقعات یاد آ رہے ہیں‘پہلا واقعہ دوسری جنگ عظیم کا ہے اس جنگ کے دوران جرمنی کا فاشسٹ حکمران ہٹلر روزانہ اپنی تقریر میں برطانیہ کے وزیر اعظم  ونسٹن چرچل کو گا لیاں دیتا پر چرچل خاموش رہتا‘ایک دن لندن کے ایک اخبار نویس نے ان کی توجہ ہٹلر کی گالیوں کی طرف مبذول کرائی تو چرچل نے ایک نہایت ہی معنی خیز جواب دیا جو ہٹلر کی تمام ملغظات پر بھاری تھا‘ انہوں نے صرف یہ کہا ایسا لگتا ہے ہٹلر کی پرائمری ایجوکیشن اچھی نہیں ہوئی‘ دوسرا واقعہ اقوام متحدہ میں اس وقت کے سوویت یونین کے وزیر اعظم نکیتیا خروشچیف کی ایک تقریر سے متعلق ہے ان دنوں ڈاگ ہیمرشولڈ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے‘وہ نہایت پڑھے لکھے شریف النسل ٹھنڈے ذہن کے انسان تھے‘خروشچیف  ایک لا ابالی  شخص تھے‘ سلامتی کونسل میں تقریر کے دوران کسی بات پر اس کا پارہ اوپر چڑھ گیا اور اس  نے اپنا ایک بوٹ پاؤں سے اتار کر اسے روسٹرم پر پٹخ کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو کتا کہہ ڈالا اب قوانین کے مطابق ڈاگ ہیمرشولڈ سارجنٹ ان آرمز sergeant in arms  کے ذریعہ اس کو  بزور بازو سلامتی کونسل کے کمرے سے  باہر نکلوا سکتے تھے پر وہ اس واقعے کو پی گئے‘ اجلاس کے اختتام پر جب ایک اخبار نویس نے ان سے اس واقعے پر نرمی ا ختیار کرنے کی وجہ پوچھی تو انہوں  نے یہ جواب دیا‘ شاید میری پرائمری ایجوکیشن سوویت یونین کے لیڈر سے بہتر ہوئی تھی۔ 

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پرائمری سکول کا استاد نیک ہو گا اور اچھی اچھی باتیں اپنی گفتار اور کردار سے بچوں کو سکھلائے گا تو ملک میں اخلاقیات کا فقدان نہیں ہوگا جو آج زندگی کے ہر شعبے میں وطن عزیزمیں  نظر آ رہا ہے‘ہم اچھے ڈاکٹر‘اچھے انجینئر‘ اچھے وکیل‘اچھے ناظم‘اچھے سائنسدان تو پیدا کر رہے ہیں‘پر اچھے انسانوں کا ملک میں فقدان ہے۔ پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی سلیکشن میں نہایت احتیاط برتنی چاہیے‘ اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ وہ  اچھی شہرت اور اچھے اخلاق کے حامل ہوں‘ اگر اس ملک میں روز اول سے اخلاقیات پر توجہ دی جاتی تو ہمارے ریاستی ادارے چلانے والوں میں رشوت‘ سفارش اور دیگر قباحتیں عام نہ ہوتیں‘ رشوت اور سفارش جو قوم کی رگوں میں سرائیت کر چکی ہیں‘ نے ملک میں ناانصافی اور دیگر قباحتوں کو فروغ دیاہے۔ بیروت وہ بد قسمت شہر ہے جو 1980 ء کے عشرے میں ایک لمبی خانہ جنگی کا شکار رہا۔آج ایک مرتبہ پھر اسرائیل کی بمباری سے اس کی اینٹ سے اینٹ بج رہی ہے‘ وہ  بیروت کسی زمانے میں مشرق وسطیٰ کا پیرس کہلاتا تھا‘آج کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حرکات و سکنات بول چال کا انداز دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح  وطن عزیز میں سیاست اور سیاست دانوں کا وہ معیار نہیں رہا کہ جو کبھی تھا آج امریکہ میں بھی جیفرسن ابراہام لنکن روزویلٹ اور جارج واشنگٹن جیسے بردبار اور دوراندیش اور معاملہ فہم صدور نہیں بن رہے۔