اگر رتن ٹاٹا جن کا اگلے روز انتقال ہوا دنیا کی سستی ترین کار بنا سکتے تھے کہ جس کی قیمت سوا تین لاکھ روپے تھی توہمارے کسی کھرب پتی کو اس قسم کی ایجاد کرنے کا خیال کیوں نہ آ یا؟ خدا لگتی یہ ہے کہ امیر ہو کہ غریب من حیث القوم ہم بادشاہوں کی طرح رہنا پسند کرتے ہیں‘ہم یہ بات بھول چکے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے خدا سے دعا مانگی تھی کہ اے باری تعالیٰ حشر کے دن مجھے غریبوں کے ساتھ اٹھانا‘ہم میں ہر شخص کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم کتنے غریب پرور اور عوام دوست ہیں‘کتنے دکھ کی بات ہے کہ برصغیر میں جو کام ہمیں کرنے چاہئے تھے وہ اغیار نے کئے‘ اچھے اچھے مشنری سکول کالج اور ہسپتال انہوں نے بنائے ہماری اشرافیہ کو یہ توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ اس قسم کے عوامی کاموں کا بیڑا اٹھا لیتی جس میں غریبوں کا فائدہ ہے‘مثال کے طور پر جو ایدھی مرحوم نے عام آ دمی کے واسطے کئے یا ان کی وفات کے بعد اب ان کے اہل خانہ والے کر رہے ہیں ہماری اشرافیہ کی تمام تر توجہ تو بس اس طرف ہے کہ قیمتی سے قیمتی گاڑی خریدی جائے‘ پرائیویٹ طیارے کا بندوبست ہو‘ محل نما بنگلے ہوں‘وغیرہ وغیرہ بینکوں میں جو اربوں روپے انہوں نے رکھے ہوئے ہیں‘ان پر ہر برس کروڑوں کا سود ان کو ملتا ہے‘وہ یہ بھول چکے ہیں کہ خدا کا تو حکم یہ ہے کہ جو سود کھائے گا اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے وہ میرے ساتھ جنگ کر رہا ہے‘ہمارے معاشرے میں وہ لوگ آ ٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کہ جنہوں نے وسیع پیمانے پرحاجت مندوں کے لئے ٹرسٹ بنائے ہوں‘ ہاں بعض لوگوں نے تھوڑے بڑے رفاعی ادارے ضرور تعمیر کئے ہوئے ہیں‘تو ہم نے بات شروع کی تھی رتن ٹاٹا کی بنائی ہوئی سستی ترین کار کی اور وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔عوام کو سستی ٹرانسپورٹ کی فراہمی تب ہی ممکن ہے کہ ملک میں انگلستان یا دوسرے یورپی ممالک کی طرح شہروں کے اندر اور ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان ٹرین ٹرام اور بسوں کا ایک مربوط ٹرانسپورٹ سسٹم بنایا جائے اور سرمایہ داروں کو بڑی بڑی قیمتی کاروں کو رکھنے سے روکنے کے واسطے قانون سازی کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ٹرین ٹرام اور بسوں میں خود سفر کرنے کی عادت ڈالیں‘ اگر ملکہ الزبتھ لندن سے سکاٹ لینڈ ٹرین میں سفر کر سکتی تھیں تو ہمارے ارباب اقتدار ٹرین میں سفر کرنے سے کیو ں شرماتے ہیں‘ چند دنوں بعد پارلیمنٹ سے چینی وزیر اعظم کا خطاب یقیناً ایک اہم سیاسی واقعہ ہوگا ۔9 برس بعد کوئی چینی لیڈر پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کرے گا۔آخری بار 2015 ء میں چینی صدر نے یہ کام کیا تھا‘چین کے ساتھ وطن عزیز کے ہر باسی کو پیار ہے‘ اسے وقت نے بتایا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی پاکستان کا دلی طور پر ہمدرد ملک ہے تو وہ چین ہی ہے‘امریکہ سے دوستانہ رکھ کر ہم دیکھ چکے کہ وہ مطلب کا یار ہے‘روس کے ساتھ بھی ماضی قریب تک ہم نے ایک فاصلہ رکھا جو غلط۔ بات تھی‘اب خدا خدا کر کے اس سے ہماری کہیں بعد از خرابی بسیار بنی ہے اور اس نئی نئی دوستی کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ہم اچھے ڈاکٹر‘اچھے انجینئر‘ اچھے وکیل‘اچھے ناظم‘اچھے سائنسدان تو پیدا کر رہے ہیں‘پر اچھے انسانوں کا ملک میں فقدان ہے‘ پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی سلیکشن میں نہایت احتیاط برتنی چاہیے‘ اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ وہ اچھی شہرت اور اچھے اخلاق کے حامل ہوں‘ اگر اس ملک میں روز اول سے اخلاقیات پر توجہ دی جاتی تو ہمارے ریاستی ادارے چلانے والوں میں رشوت‘ سفارش اور دیگر قباحتیں عام نہ ہوتیں‘ جن کی وجہ سے ملک میں ناانصافی اور دیگر قباحتوں کو فروغ ملا ہے‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پرائمری سکول کا استاد نیک ہو گا اور اچھی اچھی باتیں اپنی گفتار اور کردار سے بچوں کو سکھلائے گا تو ملک میں اخلاقیات کا فقدان نہیں ہوگا۔
جو آج زندگی کے ہر شعبے میں وطن عزیزمیں نظر آ رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حرکات و سکنات بول چال کا انداز دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاست اور سیاست دانوں کا وہ معیار نہیں رہا کہ جو کبھی تھا آج امریکہ میں بھی جیفرسن ابراہام لنکن روزویلٹ اور جارج واشنگٹن جیسے بردبار اور دوراندیش اور معاملہ فہم صدور نہیں بن رہے۔