حکومت نے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنیکی اجازت دیدی

وفاقی حکومت نے اعداد شمار میں ہیر پھیر کرکے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی، اس طرح ملک میں چینی کا بحران پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق جمعے کو وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کا اجلاس ہوا، اجلاس میں وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین، وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری، وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک، گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان اور مختلف وزارتوں و ڈویژنوں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

ای سی سی نے وزارتِ صنعت و پیداوار کی جانب سے پیش کی گئی سمری پر غور کیا، جس میں ملک میں چینی کے وافر ذخائر کے پیشِ نظر مزید 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی، اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبوں اور ایف بی آر کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق30 ستمبر 2024 تک چینی کے موجودہ ذخائر 20.54 لاکھ میٹرک ٹن تھے، جبکہ رواں کرشنگ سال کے پہلے 10 ماہ میں کل کھپت 54.56 لاکھ میٹرک ٹن رہی ہے، آنے والے دو مہینوں میں ممکنہ کھپت کا تخمینہ 9 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔۔

اس طرح، 14 لاکھ میٹرک ٹن چینی جو پہلے سے برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، کے بعد ملک میں 10.14 لاکھ میٹرک ٹن ذخیرہ موجود ہوگا، علاوہ ازیں، ای سی سی نے ایک ماہ کی کھپت یعنی 4.5 لاکھ میٹرک ٹن کو اسٹریٹیجک ریزرو کے طور پر رکھنے کے بعد بھی ملک میں5.64 لاکھ میٹرک ٹن اضافی چینی دستیاب ہونے کا عندیہ دیا ہے، تاہم وزارت کی جانب سے چینی کی کھپت اور ذخائر کے حوالے سے پیش کی گئی سمری گزشتہ اجلاس میں پیش کی گئی سمری سے متصادم ہے، جس میں اعداد و شمار میں ہیر پھیر کی گئی ہے۔

20 سمتبر کو پیش کی گئی سمری کے مطابق صر ف ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جس کو نظر انداز کرتے ہوئے ای سی سی نے ہیر پھیر پر مشتمل نئی سمری کی بنیاد پر چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی، ای سی سی نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ 18 ستمبر اور 10 اکتوبر کو پیش کی گئی سمریوں کی بنیاد پر کیا ہے جو کہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں، تاہم دونوں سمریوں پر ایک ہی وفاقی سیکریٹری انڈسٹریز سیف انجم نے دستخط کیے ہیں، دونوں سمریوں کے موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ ماہانہ کھپت میں 20.2 فیصد کمی کرکے ماہانہ کھپت 114,000 میٹرک ٹن دکھائی گئی ہے، اس طرح 1.024 میٹرک ٹن کا سرپلس ظاہر کیا گیا ہے۔

اس ہیر پھیر کو نکالنے کے بعد ملک میں صرف 336,000 میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ باقی رہے گا، جو کہ بمشکل تین ہفتوں کی ضروریات پوری کرسکے گا، جس سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوگا، جو چینی کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا، 18 ستمبر کو پیش کی گئی سمری کے مطابق ملک میں پہلے ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران چینی کی کھپت 4.797 ملین میٹرک ٹن رہی تھی، اس طرح ماہانہ کھپت 564,353 میٹرک ٹن بنتی ہے۔

ایف بی آر، پاکستان شوگر مل ایسوسی ایشن اور صوبائی کین کمشنرز نے اس امر کی تصدیق کی کہ اگلے ساڑھے تین ماہ کے دوران بھی کھپت اسی طرح رہے گی، اور مجموعی طور پر 1.974 ملین میٹرک ٹن چینی کی ضرورت ہوگی، تینوں بنیادی اسٹیک ہولڈرز نے قرار دیا تھا کہ اگست 16سے نومبر 30 تک ماہانہ 564,000 میٹرک ٹن چینی استعمال ہوگی، لیکن حیران کن طور پر 10 اکتوبر کو پیش کی گئی سمری میں اعداد شمار تبدیل کر دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے مزید 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

ای سی سی نے چینی برآمد کرنے کی شرائط میں چند ترامیم کی ہیں، جن کے مطابق پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی جائے کہ ان کی ملز 21 نومبر 2024 تک نئی فصل کے لیے پیداوار کا آغاز کریں گی، اور جو ملز اس شرط کی خلاف ورزی کرے گی، اس کا برآمدی کوٹہ منسوخ کر دیا جائے گا، برآمد کنندگان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کوٹہ الاٹ ہونے کے 90 دن کے اندر ان کی برآمدی کھیپ روانہ کر دی جائے، ملکی منڈی میں قیمتوں کے استحکام اور صارفین کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کسی بھی وقت برآمدی اجازت نامہ منسوخ کرنے کا حق رکھتی ہے۔

ای سی سی نے مزید ہدایت کی کہ کابینہ کی کمیٹی برائے نگرانی چینی برآمدات، جو پہلے ہی قائم کی جا چکی ہے، چینی کی طلب، رسد اور قیمتوں کی صورتحال پر مستقل طور پر نظر رکھے گی، علاوہ ازیں، ای سی سی نے پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی میں کام کرنے والے چینی ملازمین جو گزشتہ روز ایک حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے، کے لواحقین کیلیے معاوضے کی منظوری بھی دی، دونوں چینی شہریوں کے لواحقین کو 516,000 ڈالر فی شہری ادا کیے جائیں گے۔