ہمارے ایک قاری نے ہم سے درج ذیل سوالات کئے ہیں جو توجہ طلب بھی ہیں اور چشم کشا، بھی۔ ان کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا سے یہ دعا مانگی تھی کہ اے خدا حشر کے دن مجھے غریبوں کے ساتھ اٹھانا اور کیا نہج البلاغہ میں یہ فرمان درج نہیں کہ اللہ کا ایک فرشتہ روزانہ یہ ندا کرتا ہے کہ موت کے لئے اولاد پیدا کرو‘ برباد ہونے کے لئے جمع کرو اور تباہ ہونے کے لئے عمارتیں کھڑی کرو۔ قاری نے آگے چل کر پھر خود ہی اپنے سوال کی مزید وضاحت کرتے یہ لکھا ہے کہ ہم ان حقائق کے باؤجود دنیامیں شہنشاہوں کی طرح کیوں رہنا پسند کرتے ہیں اور اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ ٹرسٹ کی شکل میں حاجت مندوں میں تقسیم کیوں نہیں کرتے؟ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا زمین کے اوپر قیام معدود چند روزہ ہے اور پھر ہم نے خاک کی چادر اوڑھ کر ایک لمبی نیند سونا ہے کہ جس کی سحر نہ جانے کب ہو۔ سائنسدانوں کو مشرق وسطیٰ میں واقع قبرستانوں اور غاروں کی کھدائی سے انسانی جسم کی جو ہڈیاں ملی ہیں ان کے تجزیے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کرہ ارض پر انسان اسی شکل میں سینکڑوں سال پہلے بھی موجود تھا کہ جس شکل میں وہ آج نظر آ رہا ہے‘ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ انسان کا وہ قیام طولانی ہے کہ جو موت کے بعد اس نے زیر زمیں گزارنا ہے‘ یا وہ کہ جو بحیثیت مسافر چند روز وہ زمین کے اوپر گزارتا ہے۔ اگلے روز سوات جاتے ہوئے مالاکنڈ کے علاقے میں سڑک کے کنارے واقع قبرستان میں ایک قبر کے کتبے پر درج ذیل الفاظ پڑھنے کا موقع ملا کہ جو پشتو زبان میں تھے اور جو اردو کے ترجمے کے ساتھ درج ذیل ہیں۔
”جس طرح کے آج تم ہو....میں کبھی ایسا ہی تھا....ایک دن تم بھی میری طرح مٹی ہو جاؤ گے....جس طرح کہ آج میں ہو چکا ہوں“
ان ابتدائی کلمات کے بعد آج کے تازہ ترین واقعات پر ایک ہلکا سا تبصرہ پیش خدمت ہے۔لگ یہ رہا ہے کہ اگر کملا ہیرس آئندہ امریکہ کا صدارتی انتخاب جیت جاتی ہیں تو ایرانی ایٹمی تنصیبات کو سخت خطرہ درپیش ہو سکتا ہے۔ خدا لگتی یہ کہ کملا ہوں یا ٹرمپ‘دونوں اسرائیل نواز ہیں‘یہودیوں نے امریکی کے اندر اپنے پاؤں اس قدر جما رکھے ہیں کہ کوئی بھی امریکی امریکہ کا صدر بن ہی نہیں سکتا اگر اسے امریکہ میں مقیم اسرائیل کی لابی کی حمایت حاصل نہ ہو۔شنگھائی تعاون کونسل میں افغانستان کی شرکت ضروری تھی‘ اس کی اس کانفرنس میں عدم شمولیت کے بارے میں وزارت خارجہ کو وضاحت کرنا ضروری ہے۔ طورخم بارڈر پر کروڑوں روپے کے غیر ملکی جنگی اسلحہ کی جو کھیپ پکڑی گئی ہے اس کے بارے میں وزارت داخلہ کو تفصیلات پبلک کرنے کی ضرورت ہے۔کرم میں قبائلی تصادم زور پکڑ چکے ہیں جن میں ماضی میں ہونے والے بھاری اسلحہ کے استعمال سے درجنوں افراد لقمہ اجل ہو گئے ہیں۔کرم چونکہ فاٹا کا انتظامی طور پر ایک نہایت ہی حساس علاقہ ہے جہاں اکثر قبائل کے آپس میں تنازعات شدت اختیار کر جاتے ہیں اس لئے ماضی میں خیبر پختونخوا کی حکومت اپنے بہترین فیلڈ افسروں کو ہی وہاں منتظم لگایا کرتی تھی‘جنہیں ماضی میں پولٹیکل ایجنٹ اور آج کل ڈپٹی کمشنر کہا جاتا ہے۔یہ امر یقیناً تشویش ناک ہے کہ لاہور دنیا کے آلود ترین شہروں میں پہلے اور کراچی تیسرے نمبر پر ہے جو‘ ان صوبوں کی حکومتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔