کرکٹ کا زوال

بلوچستان کے امن و عامہ کو آپ کسی طور بھی اطمینان بخش قرار نہیں دے سکتے بالکل اسی طرح کہ جس طرح خیبر پختونخوا کے بعض جنوبی اضلاع کو کہ جہاں کئی عرصے سے بڑے تواتر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں اس وقت اگر ارباب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے قائدین کی ترجیحات کی فہرست میں کوئی مسئلہ سر فہرست ہونا چاہئے تو وہ صرف اور صرف دہشت گردی کا معاملہ اور سیاسی استحکام کا حصول ہے کیونکہ خاکم بدہن اگر ملک ہی نہ رہا تو کہاں کی سیاست اور دیگر مسائل‘ اس لئے قطع نظر اس کے کہ وہ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں قوم اپنے سیاسی لیڈروں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کا حتی الوسع ساتھ دیں گے ‘لگ یہ رہا ہے کہ سکوائش اور ہاکی کے بعد اب کرکٹ کا ستارہ بھی گردش میں ہے کیونکہ اس میں بھی ہماری کرکٹ ٹیم کو عالمی سطح کے میچوں میں پے در پے شکست ہو رہی ہے جس گیم میں سیاست گھس آئے اس کا حال پھر برا ہی ہوتا ہے ۔وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب دونوں عوامی فلاح کے کاموں میں کافی متحرک نظر آ رہے ہیں اور اگر انہوں نے ان ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا کہ جن کا اجراءانہوں نے گزشتہ چھ ماہ میں کیا ہے تو ان سے وطن عزیز کی معیشت میں ایک صحت مند تبدیلی آ ئے گی ۔بھارت افغانستان کی ہمیشہ پس پردہ ہلہ شیری کرتا آیا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کا ذکر بار بار کر کے پاکستان کو پریشان کرے اور افغانستان ایک تابعدار زر خرید غلام کی طرح بھارت کی ڈگڈگی پر ناچتا آ یا ہے حالانکہ جس افغان حکمران کے وقت یہ لائن کھینچی گئی تھی ‘اس کے بعد آ نے والے افغان حکمران خصوصاً امان اللہ خان نے بھی اس معاملے کو ری وزٹ کر کے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی‘ وقت اور دنیا نے اسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر تسلیم کیا ہوا ہے‘ اسے اب تازہ کرنا محض ایک سازش کے علاوہ کچھ بھی نہیں‘ اگر ماضی میں دو ممالک کے درمیان طے شدہ باﺅنڈری لائنز کو چھیڑنا شروع کر دیا گیا اور گڑھے مردوں کو اکھاڑنے کی روش شروع کر دی گئی تو دنیا کا امن درہم برہم ہو جائے گا ۔بھارت یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ اگر کل کلاں چین اسے کہہ دیتا ہے کہ فرنگیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے تحت برٹش انڈیا اور چین کے درمیان کھینچی گئی میک موہن McMahon line کو وہ نہیں مانتا تو پھر بھارت کیا کرے گا ؟لہٰذا ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیے ۔ چیف جسٹس کا یہ اقدام قابل ستائش ہے جو انہوں نے سرکاری خرچ پر الوداعی ڈنر سے معذرت کر لی ہے کہ جس پر 20 لاکھ روپے سے زائد لاگت آ تی ہے پاکستان جیسا غریب ملک کہ جس کا نظام سودی قرضوں پر چل رہا ہو اسے سرکاری خرچ پر اس قسم کے اللے تللے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمیں اسراف نہیں بلکہ قناعت کی ضرورت ہے‘ پر نظر آتا ہے کہ ابھی تک ہماری آ نکھیں نہیں کھلیں۔ اگلے روز صدر زرداری کی اپنے روسی ہم منصب پیوٹن سے ملاقات ایک دانشمندانہ اقدام تھا۔ روس کا دل ہم سے ماضی میں کافی عرصے تک میلا رہا ہے کیونکہ ہم نے امریکہ کی حد سے زیادہ خوش نودی کی خاطر سابقہ سوویت یونین کے خلاف کئی ایسے کام کئی جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے تھے۔ لالی ووڈ اور ٹیلی ویژن کے مشہور فنکار عابد کشمیری جو مزاحیہ اداکاری میں ید طولی رکھتے تھے ۔اب ہم میں نہیں رہے ۔اگلے روز وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کا شمار ہماری فلم انڈسٹری کے نامور مزاحیہ اداکاروں کی اس فہرست میں ہوتا تھا کہ جس میں نذر ‘ منور ظریف ‘ظریف ‘لہری ‘نرالا‘ رنگیلا‘ زلفی اور علی اعجاز شامل ہیں۔