تلخ مگر کھرا سچ

ہو سکتا ہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اس بیان سے بعض لوگ اتفاق نہ کریں کہ جس میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سینٹ میں آ دھے لوگ پیسے دے کر آ تے ہیں‘ یہ پارلیمانی جمہوریت صرف اسی صورت میں ڈلیور کر سکتی ہے اگر سیاسی پارٹیوں کے قائدین اپنی صفوں میں موجود ہر لحاظ سے بہترین اور دیانتدار افراد کو اسمبلیوں کا الیکشن لڑنے کا ٹکٹ دیں‘کیا اس میں کوئی شک ہے کہ ماضی میں ہماری اسمبلیوں میں بد ترین قسم کی ہارس ٹریڈنگ ہر دور میں ہوتی رہی ہے روپوں کی خاطر ووٹنگ کے وقت لوگ اپنا ضمیر بیچتے رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ایسی قانون سازی شاذ ہی ہوئی کہ جو عوام دوست ہوتی ہمیشہ خواص اور اشرافیہ کے مفادات کا ہی خیال رکھا گیا اور یہی غالباً وجہ ہے کہ اب سوچ سمجھ اور سیاسی سوچ بوجھ رکھنے والے حلقے یہ سوچ رہے ہیں کہ کیوں نا پاکستان کے الیکٹورل سسٹم کو Scandinavian یعنی ناروے ڈنمارک اور سویڈن جیسے ممالک میں نافذ متناسب آبادی کے نمائندگی کے نظام یعنی proportional  representation  system کی طرز پر نہ ڈھال دیا جائے تاکہ معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے حقیقی لوگ اسمبلیوں میں بیٹھیں کیونکہ جتنا وہ اپنے طبقے کے مسائل کو سمجھ سکتے ہیں‘اشرافیہ کے افراد جو کہ ایک عرصہ دراز سے غریب طبقوں کی بھی اسمبلیوں میں نمائندگی کرتے چلے آ رہے ہیں کہ جن کا برائے راست ان سے تعلق نہیں ہے وہ غریب طبقے کے دکھ دردمحسوس نہیں کر سکتے۔
‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے پرانے کٹر یہودی یہ چاہتے ہیں کہ ایک گریٹر اسرائیل greater Israel کا وجود عمل میں لایا جائے کہ جس میں اردن‘ سعودی عرب‘ مصر‘ شام‘ عراق اور لبنان شامل ہوں‘ اس مقصد کے حصول کے لئے اسرائیل ایک عرصہ دراز سے عمل پیرا ہے‘لگ یہ رہاہے کہ اقوام متحدہ کا انجام لیگ آف نیشنز کے انجام سے مختلف نہیں ہو گا کیونکہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کے قابل نہیں رہا اگر ایسا ہوتا ہے تو تیسری عالمگیر جنگ کے چھڑ جانے کو پھر شایدہی کوئی روک سکے‘۔