اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کو افرادی اور اسرائیل کو ٹیکنالوجی میں برتری حاصل ہے‘ اسرائیلی حکام نے بہت پہلے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی تعداد یہودیوں کی تعداد سے اس قدر زیادہ ہے کہ وہ ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کئے بغیر ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے لہٰذا انہوں نے اپنی تمام تر توجہ ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرنے کی طرف مبذول رکھی‘تازہ ترین اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو اینٹی میزائل سسٹم فراہم کر دیا ہے کہ جو 150سے 200کلومیٹرز رینج میں میزائلوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ پیآئی اے اور پاکستان ریلویز دونوں کا برا حال ہے‘آ ے دن وہ مختلف قسم کے حادثات کا شکارہوتے ہیں۔اگلے روز اگر ایک طرف حیدر آ باد میں کراچی ایکسپریس کی دو بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں تو دوسری جانب العین سے اسلام آباد آنے والی پی آئی اے کی ایک پرواز کو ہنگامی طور پر کوئٹہ میں اس لئے لینڈ کروانا پڑا کہ دوران پرواز اس میں کوئی نقص پیدا ہو گیا تھا۔یہ دونوں قومی ادارے 1970کے اوآخر تک ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے اس کے بعد جب یہ دونوں ادارے غلط ہاتھوں میں دئیے گئے تو ان کا زوال شروع ہونے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ قومی ائر لائن کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ اب خدا کرے کہ اس عمل میں پی آئی کے اثاثے اونے پونے اِدھر سے اُدھر نہ کر دئیے جائیں۔ ریلوے کی بحالی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ سی پیک کے تحت اس کے موجودہ انفراسٹرکچر کو جدید تقاضوں سے ہم کنار کیا جائے‘گوادر ائر پورٹ کا فنکشنل ہو جانا بہت بڑی بات ہے جس سے ہر پاکستانی کا دل باغ باغ ہوا ہے‘خوش قسمت ہوتے ہیں وہ عوام جن کو قدرت چین جیسی لیڈرشپ سے نوازتی ہے جو اقتدار کو اپنی جیبیں بھرنے کے بجائے اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اسلام آباد میں گزشتہ چند روز سے واقعی بڑی گہما گہمی رہی۔SCOکانفرنس میں کئے فیصلے واقعی وطن عزیز کی معیشت کے لئے واقعی گیم چینجر ثابت ہوں گے۔
اس کانفرنس میں کم و بیش ایک ہزار غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی ہے‘بلا شبہ 1974ء میں لاہور میں جو اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی‘ اس کے بعد پاکستان میں عالمی لیڈروں کا اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا‘ اس پر حکومت وقت یقینا مبارک باد کی مستحق ہے۔کرکٹ کے امور لگتا ہے بچگانہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں اور قومی کرکٹ ٹیم میں ڈسپلن کا جو فقدان نظر آ رہا ہے‘ وہ اس قدر شدید کبھی نہ تھا جس کی وجہ سے ہم ان ٹیموں سے ہار رہے ہیں جو کسی شمار میں ہی نہ تھیں۔ آج ہماری ٹیم کو عبد الحفیظ کاردار جیسے کپتان کی ضرورت ہے جب تک ہماری کرکٹ ٹیم کی کمان ان کے ہاتھ تھی ٹیم کے تمام کھلاڑی بیک وقت ان کی بہت عزت بھی کرتے اور ان سے خائف بھی رہتے کہ ان سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جائے کہ جس کی پاداش میں ان کو سخت سزا ملے کیونکہ جہاں تک ڈسپلن کے نفاذ کا تعلق تھا کاردار اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا کرتے‘آج کل کافی عرصے سے حکومت نے کرکٹ کے معاملات بھی وزیر داخلہ کے حوالے کر کے ان پر کافی بوجھ ڈالا ہوا ہے۔۔