چین کی اعلیٰ سفارتکاری کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بغیر کوئی گولی چلائے وہ گوادر کے گرم پانیوں تک پہنچ گیا ہے یہ وہی گرم پانی ہے جس تک رسائی کیلئے سابقہ سوویت یونین نے کتنے پاپڑ بیلے پر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا وہ افغانستان کو زیر اثر کرنے کے بعد بلوچستان میں واقع گوادر بندرگاہ کو ہتھیا لینا چاہتا تھا‘ روس کو بعد از خرابی بسیار یہ عقل آئی کہ وہ امریکہ کا مقابلہ کسی بھی شعبہ میں تن تنہا نہیں کر سکتا لہٰذا پیوٹن کی قیادت میں اس نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کئے اور آج روس اور چین ایک ہی پیج پر ہیں اور ان دونوں کی قربت سے آج دنیا میں کمیونسٹ بلاک جتنا مضبوط ہو گیا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ پاکستان نے آج
جو خارجہ پالیسی اپنائی ہے وہ موجودہ حالات کے تقاضوں کے پیش نظر نہایت درست ہے روس اور چین جس دن سے ایک پیج پر آئے ہیں اس دن سے امریکہ کے پیٹ میں مروڑ پڑ رہے ہیں اسے سجھائی نہیں دے رہا کہ ان دونوں ممالک کے اتحاد کو کس طریقے سے توڑا جائے کیونکہ اس کے لئے تو اب یک نہ شد دو شد والی بات ہو گئی ہے پہلے تو دنیا میں سوویت یونین سیاسی طور پر اس کا مد مقابل تھا پر اب تو جب سے چین اور روس یک جان دو قالب ہوئے ہیں امریکہ کا واسطہ اب ایک نہایت ہی مضبوط کمیونسٹ بلاک سے پڑ رہا ہے جس کی ماضی قریب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی شنگھائی تعاون کانفرنس کے پاکستان میں انعقاد سے نہ صرف یہ کہ پاک چین اور پاک روس تعلقات میں مزید نکھار آیا ہے پاکستان اور وسطی ایشیا کی کئی اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کو بھی تقویت ملی ہے فارن آ فس مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے یہ کانفرنس بطریق احسن منعقد کروائی۔