ملک میں موٹر سائیکلوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے جس شہر میں دیکھو ان کی بھرمار ہے‘حیرت یہ ہے کہ ایک موٹر سائیکل پر ایک نہیں بلکہ چار چار افراد سوارہوتے ہیں‘شیر خوار بچوں کو بھی ان کی ماں نے گود میں بٹھایا ہوتا ہے‘ ان کے چلانے کے واسطے جو حفاظتی اقدامات اٹھانے اور لوازمات پورے کرنے ضروری ہیں ان کا خیال کوئی نہیں کر رہا اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ سڑکوں پر جو حادثات ہو رہے ہیں ان میں موٹر سائیکلوں کے حادثات کی تعداد زیادہ ہے‘ ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکلیں چلائی جا رہی ہیں۔ ون ویلنگ کرنے والوں پر بھی پولیس ہاتھ ڈالنے میں ناکام نظر آ رہی ہے‘ اگر تو ماضی میں شہروں کے اندر ارباب اقتدار نے سرکاری شعبے میں ایک مربوط پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو فروغ دیا ہوتا کہ جس طرح کسی زمانے میں جی ٹی ایس کی بسوں کی شکل میں پشاور میں تھا تو شاید عام آ دمی کے لئے ٹرانسپورٹ کے مسائل پیدا نہ ہوتے اور وہ موٹر سائیکل جیسی خطرناک سواری کا سہارا نہ لیتا‘ ظلم یہ بھی ہوا ہے کہ کراچی میں اچھا خاصاعوام دوست ٹرام سسٹم چل رہا تھا اس کو الٹا بند کر دیا گیا اس لئے اس ملک کے عام آدمی نے حکومت پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے اس حالیہ فیصلے کو سراہا ہے کہ جس کے تحت لاہور میں ٹرام سسٹم کا آ غازکیا جا رہا ہے‘ کیا ہی اچھا ہو اگر اسے کراچی میں بھی بحال کر دیا جائے اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی اس کا اجراء کر دیا جائے۔ صوبہ پنجاب میں اپنا گھر‘ کسان پیکج‘ ہمت کارڈ کے ناموں سے جو فلاحی منصو بے شروع کئے گئے ہیں وہ بلاشبہ معاشرتی انصاف اور ترقی کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ اگر سرخ فیتے کا شکار نہ ہوں اس لئے ان کی باریک بینی سے مانیٹرنگ بہت ضروری ہو گی۔
سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ میں موجود رقم کو حکومت کے پبلک اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کا فیصلہ ایک صائب اقدام ہے۔دو روز قبل دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سر براہ اجلا س بخیرو خو بی اختتام پذیر ہواس کانفرنس میں کم و بیش ایک ہزار غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی ہے‘بلا شبہ 1974ء میں لاہور میں جو اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی‘ اس کے بعد پاکستان میں عالمی لیڈروں کا اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا‘ اس پر حکومت وقت یقینا مبارک باد کی مستحق ہے۔کرکٹ کے امور لگتا ہے بچگانہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں اور قومی کرکٹ ٹیم میں ڈسپلن کا جو فقدان نظر آ رہا ہے‘ وہ اس قدر شدید کبھی نہ تھا جس کی وجہ سے ہم ان ٹیموں سے ہار رہے ہیں جو کسی شمار میں ہی نہ تھیں۔ آج ہماری ٹیم کو عبد الحفیظ کاردار جیسے کپتان کی ضرورت ہے جب تک ہماری کرکٹ ٹیم کی کمان ان کے ہاتھ تھی ٹیم کے تمام کھلاڑی بیک وقت ان کی بہت عزت بھی کرتے اور ان سے خائف بھی رہتے کہ ان سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جائے کہ جس کی پاداش میں ان کو سخت سزا ملے کیونکہ جہاں تک ڈسپلن کے نفاذ کا تعلق تھا کاردار اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا کرتے‘آج کل کافی عرصے سے حکومت نے کرکٹ کے معاملات بھی وزیر داخلہ کے حوالے کر کے ان پر کافی بوجھ ڈالا ہوا ہے۔