معاشی ہمواری‘ چین کی پالیسیاں 

اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں ایک ارب کے لگ بھگ لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور دنیا کی  آ بادی 8 ارب کے برابر بتائی جاتی ہے۔ غربت کی لکیر کے الفاظ کی تشریح کچھ یوں ہے کہ آدمی کی آمدنی دو ڈالر یومیہ سے کم ہو اور وہ بنیادی ضروریات زندگی سے محرو م ہو‘جیسا کہ صحت مندانہ زندگی گزار نے کے لئے خوراک اور شفاف پانی کی دستیابی اور بیماری  کی صورت میں علاج معالجے کی سہولت‘جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ دنیا  کی ایک بڑی آ بادی یعنی‘ ایک ارب اور پچاس کروڑ  لوگوں کے قریب آ بادی صرف  چین میں بستی ہے ۔1990 ء میں چین  میں 75کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے ‘پھر ہوا یوں کہ چین کے ارباب بست و کشاد نے ایسی معاشی پالیسیوں  کا ملک میں اجرا ء کیا کہ جن کی بدولت 2012ء میں یعنی20 سال کے عرصے میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد گھٹ کر نو کروڑ ہو گئی۔ اس لئے کئی سیاسی تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ آخر ہم جیسے ممالک کے ارباب اقتدار کیوں اس ملک سے غربت کو ختم کیوں  نہیں کر سکتے‘اس کا آ سان جواب یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لئے ارباب اقتدار کو ما ؤزے تنگ اور ان کے کامریڈوں جیسی طرز زندگی اپنانی ضروری ہوتی ہے۔سادگی اور قناعت کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔اللے اور تللے چھوڑنے پڑتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے کے بجائے  چھوٹی گاڑیوں کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ محل نما بنگلوں کے بجائے چھوٹے گھروں میں رہنے کی ریت اپنانا ہوتی ہے اور یہ سب کچھ قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ جس کی کس دور میں بھی ہمارے ارباب اقتدارکمی نہیں لا سکے۔اب آتے ہیں حالات حاضرہ کی جانب جس پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ میں موجود رقم کو حکومت کے پبلک اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کا فیصلہ ایک صائب اقدام ہے۔تین روز قبل دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سر براہ اجلا س بخیرو خو بی اختتام پذیر ہوگیااس میں کم و بیش ایک ہزار غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی ہے‘بلا شبہ 1974ء میں لاہور میں جو اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی‘ اس کے بعد پاکستان میں عالمی لیڈروں کا اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا‘ اس پر حکومت وقت یقیناً مبارک باد کی مستحق ہے۔کرکٹ کے امور لگتا ہے بچگانہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں اور قومی کرکٹ ٹیم میں ڈسپلن کا جو فقدان نظر آ رہا ہے‘ وہ اس قدر شدید کبھی نہ تھا جس کی وجہ سے ہم ان ٹیموں سے ہار رہے ہیں جو کسی شمار میں ہی نہ تھیں۔ آج ہماری ٹیم کو عبد الحفیظ کاردار جیسے کپتان کی ضرورت ہے جب تک ہماری کرکٹ ٹیم کی کمان ان کے ہاتھ تھی ٹیم کے تمام کھلاڑی بیک وقت ان کی بہت عزت بھی کرتے اور ان سے خائف بھی رہتے کہ ان سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جائے کہ جس کی پاداش میں ان کو سخت سزا ملے کیونکہ جہاں تک ڈسپلن کے نفاذ کا تعلق تھا کاردار اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا کرتے‘آج کل کافی عرصے سے حکومت نے کرکٹ کے معاملات بھی وزیر داخلہ کے حوالے کر کے ان پر کافی بوجھ ڈالا ہوا ہے۔