کسی منچلے نے ہمیں درج ذیل سوالات ارسال کئے ہیں جو یقیناً ہر پاکستانی کے ذہن میں بھی اٹھتے ہوں گے۔ جب وہ قیمتی گاڑیوں میں اس ملک کے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے محل نما بنگلوں میں ملاقاتوں کے واسطے آتے جاتے اور پرتعیش اور مرغن کھانا کھاتے دیکھتے ہوں گے ‘مانا کہ ان میں جو ارباب اقتدار ہیں وہ تو ان اللوں تللوں پر سرکاری خزانے سے پیسے صرف کرتے ہوں گے۔سرکاری گاڑیوں میں استعمال ہونے والا پٹرول اور ظہرانوں اور عشائیوں پراٹھنے والا ان کا خرچہ بھی سرکاری خزانہ برداشت کرتا ہو گا ‘ اسی طرح ان میں جو حضرات ارکان پارلیمنٹ ہیں‘ان کو بھی ہر ماہ اتنا بھاری بھر کم مشاہرہ ہاتھ آ تا ہے کہ وہ مندرجہ بالا اخراجات کے متحمل ہو سکتے ہیں‘ پر ان اصحاب میں کئی چہرے ایسے بھی تو ہیں ہیں کہ واقفان حال کے مطابق کل تک تو وہ بمشکل اپنے لئے دو وقت کا کھانا کما سکتے تھے‘ ان کا کوئی معقول آمدنی کا مستقل ذریعہ بھی نہیں ہے‘پر اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں اگر وہ محل نما بنگلوں میں قیام پذیر ہیں اور کروڑوں روپے کی مالیت کی گاڑیوں میں وہ گھومتے پھرتے نظر آ تے ہیں اور ظہرانوں اور عشائیوں پر موٹی رقم خرچ کررہے ہیں تو پوچھنے والے تو ضرور پوچھیں گے کہ یہ مال و متاع کہاں سے آ تا ہے؟ان کے رہن سہن بودو باش سے تو یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ بیرونی ممالک کے قرضوں پر چلنے والے کسی غریب ملک کے باشندے ہیں بلکہ گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ کسی عرب امارات کے ملک کے ارباب اقتدار ہیں‘ اگر کوئی یہ کہے کہ مندرجہ بالا اخراجات یہ لوگ اپنی اپنی سیاسی پارٹی کے فنڈز سے لگاتے ہیں تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کیا الیکشن کمیشن نے تکلیف
اٹھا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے پارٹی فنڈز میں کن کن حضرات نے کتنی کتنی رقم کب کب جمع کی ہے اور ان کے کوائف کیا ہیں وہ کیا کاروبار کرتے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ جرمنی کی چانسلرانجیلہ مارکل کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے ان سے یہ سوال کیا کہ ہمیں احساس ہے آپ نے وہی سوٹ پہنا ہوا ہے جو آپ اقتدار کے دنوں میں پہنتی تھیں‘کیا اس سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ آپ کے پاس دوسرا سوٹ نہیں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا میں حکمران تھی ماڈل نہیں تھی‘ریٹائرمنٹ کے بعدانجیلہ مارکل دوسرے عام جرمن شہریوں کی طرح ایک عام سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں‘اگر آپ چین کے ماؤزے تنگ‘شمالی ویت نام کے ہوچن من‘کیوبا کے فیڈل کاسترو‘ تنزانیہ کے جولیس نیانارے اور جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا نے جو طرز زندگی اپنایا تھا‘ اس پر بھی اگر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہیں تو رشک آتا ہے‘ان ممالک کے عوام کی تقدیر پر کہ جن کو قدرت نے اس قدر غریب پرور عوام دوست
اور دیانتدار لیڈر عطا کئے تھے‘ یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا لیڈر دنیا کے تمام ممالک کے غریب عوام کی آنکھ کا تارہ بن گئے ہیں‘ ہمیں حیرت بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی کہ وطن عزیز کو قائد اعظم‘قائد ملت اور سردار عبدالرب کے بعد ان جیسے اوصاف رکھنے والی قیادت نصیب ہوئی اور نہ علامہ اقبال کی سوچ کو کسی نے عملی طور پروان چڑھایا محض زبانی جمع خرچی کے۔اگر اس سلسلے میں کوتاہی نہ برتی جاتی تو آج ہمارا شمار بھی دنیا کی خوشحال قوموں میں ہوتا۔اب آتے ہیں چند مسائل کی طرف جن کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ جب تک ٹریفک پولیس ان موٹر سائیکل چلانے والوں پر آ ہنی ہاتھ نہیں ڈالے گی جو بغیر ڈرائیونگ لائسنس موٹر سائیکل چلاتے ہیں‘ ون ویلنگ کرتے ہیں‘تیز رفتاری سے باز نہیں آ تے اور موٹر سائیکل پر خواتین اور شیر خوار بچوں کو بھی بٹھاتے ہیں اور ان پر طرہ یہ کہ ہیلمٹ کے بغیرموٹر سائیکل چلاتے ہیں‘ ٹریفک حادثات میں ہلاک اور معذور ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہی جائے گا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اگلے ماہ روس کے وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں‘جس کے دوران سٹیل مل‘ آ ئل ریفائنری‘ گیس پائپ لائن سمیت توانائی کے منصوبوں پر بات چیت ہوگی۔ان معاملات میں روس پاکستان کی کافی حد تک معاونت کر سکتا ہے۔امریکہ اگر ایک طرف تائیوان کی چین کے خلاف ہلہ شیری کر رہا ہے تو دوسری جانب وہ یوکرائن کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھی کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے اور یہ دونوں اقدامات خطرے سے خالی نہیں ان سے تیسری عالمگیر جنگ چھڑنے کا خدشہ ہے۔