زیادہ دور کی بات نہیں ماضی قریب تک ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر جو بیک وقت ضلع کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ڈسٹرکٹ ریونیو کلکٹر بھی ہوا کرتا تھا‘ ہر ماہ کی دس تاریخ کو ضلع کے تمام ایگزیکٹیو مجسٹریٹوں اور تحصیلداروں بشمول افسر مال کے اجلاس کی صدارت کرتا جس میں اسے بتلایا جاتا کہ گزشتہ ماہ میں ضلع بھر میں کتنے فوجداری مقدمات فیصلہ ہوئے اور کتنے زیر التوا ہیں اور ریونیو مقدمات کے ڈسپوزل کی کیا رفتار ہے؟ اس قسم کے اجلاسوں سے فائدہ یہ ہوتا تھا کہ مجسٹریٹ متحرک رہتے اور ریونیو کورٹس کے پریذائیڈنگ افسران بھی سستی کا مظاہرہ نہ کرتے اسی طرح ریونیو سائیڈ پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بھی ہر ماہ ڈسٹرکٹ کلکٹرز اور ایڈیشنل کمشنروں کی عدالتوں میں گزشتہ ماہ فیصلہ ہونے والے مقدمات کا ایک ماہانہ میٹنگ میں جائزہ لیتا‘افسوس کہ ایک عرصے سے اس قسم کی مانیٹرنگ نہیں کی جا رہی‘ جس کا نقصان یہ ہواہے کہ سائلین کی ایک بڑی تعداد روزانہ عدالتوں کے چکر لگا کر خجل خوارہو رہی ہے۔ اگر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اور ڈویژنل کمشنرز اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں تو ریونیو کورٹس میں کافی حد تک زیر التوا مقدمات
کی تعداد میں کمی لائی جا سکتی ہے‘چونکہ اب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹی والا پرانا نظام نہیں رہا اور فوجداری مقدمات بھی سول ججز دیکھ رہے ہیں‘جہاں تک محکمہ مال میں موجود کمی اور خامیوں کا تعلق ہے‘ ان کا تدارک صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے لے کر ایڈیشنل کمشنرز ذاتی طور پر وقتاً فوقتاً ریونیو تحصیلوں پر اچانک چھاپے مار کر معلوم کریں کہ کیا پٹواری‘گردآور اور تحصیل دار ویسٹ پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ کے مطابق کام کر کے ریونیو دستاویزات میں درست اندراج کر رہے ہیں یا نہیں؟یہاں پر ایک بات قابل ذکر ہے‘ چند برس پہلے کرک میں نئے بھرتی ہونے والے پٹواریوں کی پری سروس pre service ٹریننگ کے لئے ایک سکول کھولا گیا تھا تاکہ ان کی تعیناتی سے پیشتر ان کی ضروری ٹریننگ کی جائے۔
شنید ہے کہ اب وہ سکول بند کر دیا گیا ہے۔ اگر مناسب تربیت کے بغیر پٹواریوں کو تعینات کیا جاتا ہے تو محکمہ مال میں پھیلی ہوئی خرابیوں کا تدارک مشکل ہوگا‘ اس ضمن میں سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو خود بھی یہ جاننے کے لئے کہ ہر ضلع میں ریونیو معاملات ریونیو قوانین کے مطابق چل رہے ہیں‘ وقتا ًفوقتاً ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر کا بنفس نفیس دورہ کرکے وہاں کے کسانوں اور زمین داروں سے میٹنگ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ایک دوسرا اہم مسئلہ کہ جس کی طرف حکومت وقت کی فوری توجہ درکار ہے‘ وہ ہے صوبے بھر میں ایک موثر فائر بریگیڈ سسٹم کی عدم موجودگی‘ ملک کے کسی بھی شہر میں کسی بھی میونسپل ادارے کے پاس اپنا کوئی متحرک اور چوبیس گھنٹے فعال فائر بریگیڈ سسٹم موجود نہیں کہ جو کسی جگہ لگی ہوئی آ گ کو بر وقت بجھا سکے‘نہ کسی کے پاس آگ بجھانے کیلئے تربیت یافتہ عملہ موجود ہے اور نہ آگ بجھانے والا سامان‘جس کا نتیجہ پھر یہ نکلتا ہے کہ ہر میونسپل کمیٹی یا کارپوریشن کو افواج پاکستان کے متعلقہ اداروں سے فائر بریگیڈ منگوانے پڑتے ہیں۔ پتہ نہیں کہ ہمارے لوکل گورنمنٹ کے ادارے اس اہم عوامی نوعیت کے کام اور ڈیوٹی کی طرف کما حقہ توجہ کیوں نہیں دے پا رہے؟