پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی 

جس دور کی آج اس کالم میں ہم بات کریں گے اس دور میں صرف پرنٹ میڈیا ہوتا تھا اور الیکٹرانک میڈیا کا ظہور صرف پی ٹی وی اور ریڈیو تک محدود تھا‘پر اس سے پیشتر یہ جملہ معترضہ لکھنا ہم ضروری تصور کرتے ہیں کہ اسرائیل کا کوئی بھی وزیراعظم موجودہ وزیر اعظم بنجانیتن یاہو جیسا متعصب یہودی نہیں آیا کہ جو بربریت میں ہٹلر کو کافی پیچھے چھوڑ گیا ہے جو زخم فلسطینیوں کی نفسیات پر لگے ہیں ان کو بھرنے میں ایک زمانہ لگے گا۔جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو یہودی لابی اس قدر امریکہ کی سیاست پر حاوی ہے کہ کوئی بھی امریکی امریکہ کا صدر بننا سوچ بھی نہیں سکتا اگر وہ اس کی حمایت نہ کرے۔ اور اب ذرا ان اخبارات کا ذکر ہو جائے جو پشاور سے ماضی قریب تک چھپتے رہے اس دور  کے نامور صحافیوں میں راجہ اصغر‘ عبدالواحد یوسفی‘سید عسکر علی شاہ‘ سید حسن گیلانی‘ احقر سرحدی‘عبداللہ شاہ‘ ملک مرتضےٰ‘ شریف فاروق‘غلام غوث صحرائی‘ حفیظ الفت‘باری ملک‘حفیظ قریشی‘سید کاظم علی شاہ‘ قدوس صہبائی‘حافظ ثنااللہ‘ سیداور ماسٹر خان گل کے نام قابل ذکر ہیں۔ ایک ایسا دور بھی گزراجب انگریزی روزنامے خیبر میل کے ایڈیٹوریل کافی شوق سے لوگ پڑھا کرتے‘جو سید عسکر علی شاہ لکھتے تھے‘ اس دور میں  ان میں کئی لوگ تو اب بقید حیات نہیں رہے جس دور کی ہم نے بات شروع کی ہے‘اس میں بھی حکومت وقت اگر کسی خبر کو چھپنے سے روکنا چاہتی تو اخبارات کو اس کی اشاعت سے منع کر دیتی تھی اور اس عمل کو پریس ایڈوائز کہا جاتا تھا جس دور کا ہم ذکر کرتے ہیں اس  میں اخبار میں کام کرنے والے صحافیوں کا مشاہرہ آج کے مقابلے میں بہت کم تھا۔مرزا محمود سرحدی پشاور کے مشہور مزاحیہ شاعر تھے‘  ان کے چند قطعات درج ذیل ہیں۔
ہم نے اقبال کا کہا مانا
 اور فاقوں مرتے تھے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں 
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
جھوٹ کہتا ہوں اور بے کھٹکے
کون سب کہہ کے دار پر لٹکے
کاتب اخبار کے اہم رکن ہوتے تھے کیونکہ رات گئے تک انہیں اخبار میں چھپنے والے مواد کی کتابت کرنا ہوتی‘ اب تو کمپیوٹر کے آ جانے سے اخبار کمپوز کرنا کافی آ سان ہو چکا ہے۔ اگلے روز پاک بحریہ نے 145ملین ڈالرز مالیت کی جو منشیات پکڑی ہیں‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں منشیات کا کاروبار کرنے والے کس قدر متحرک ہیں کہ جن کے پھیلا ؤسے اس ملک کی جوان نسل کا مستقبل تاریک کر کے اس کی بیخوں میں پانی دیا جا رہا ہے‘ملک کے اندر اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے جنگی بنیادوں پر مہم چلانا ضروری ہے کیونکہ منشیات کی جدید ترین قسم جو آ ئس کے نام سے پکاری جاتی ہے‘کا استعمال بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کا زیادہ تر استعمال تعلیمی اداروں کے طلباء کر رہے ہیں‘ آئس  نے آج ہیروئن کی جگہ لے لی ہے۔
کرکٹ کے امور لگتا ہے بچگانہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں اور قومی کرکٹ ٹیم میں ڈسپلن کا جو فقدان نظر آ رہا ہے‘ وہ اس قدر شدید کبھی نہ تھا جس کی وجہ سے ہم ان ٹیموں سے ہار رہے ہیں جو کسی شمار میں ہی نہ تھیں۔ آج ہماری ٹیم کو عبد الحفیظ کاردار جیسے کپتان کی ضرورت ہے جب تک ہماری کرکٹ ٹیم کی کمان ان کے ہاتھ تھی ٹیم کے تمام کھلاڑی بیک وقت ان کی بہت عزت بھی کرتے اور ان سے خائف بھی رہتے کہ ان سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جائے کہ جس کی پاداش میں ان کو سخت سزا ملے کیونکہ جہاں تک ڈسپلن کے نفاذ کا تعلق تھا کاردار اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا کرتے۔
‘آج کل کافی عرصے سے حکومت نے کرکٹ کے معاملات بھی وزیر داخلہ کے حوالے کر کے ان پر کافی بوجھ ڈالا ہوا ہے۔