اگلے روز پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی انگلستان کی کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں شکست دینے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید پاکستان کرکٹ ٹیم کی نشاۃ ثانیہ کا عمل شروع ہو گیا ہے کیونکہ انگلستان کی کرکٹ ٹیم کا دورحاضر کی دنیائے کرکٹ کی پہلی تین چار طاقتور ٹیموں میں شمار کیا جاتا ہے ایک دور تھا جب عبد الحفیظ کاردار جیسا کپتان پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو میسر تھا گو کہ وہ ایک اوسط درجہ کا آل راؤنڈر تھا پر بطور ایک منتظم اس کا جواب نہ تھا‘ٹیم کے اندر ڈسپلن جتنا اس کے وقت میں تھا‘وہ اس کے بعد دیکھنے میں نہیں آیا‘ کھلاڑی اس سے خائف بھی رہتے‘اور ان کی آنکھوں میں اس کی عزت بھی بہت تھی‘ ماضی میں ہر بیرونی ملک کے دورے کے بعد ٹیم کا کپتان اس دورے کے بارے میں ایک کتاب بھی رقم کرتا‘ہمیں یادہے 1957ء کے دورہ ویسٹ انڈیزکے بعد کاردار نے under the green canopy کے عنوان تلے ایک کتاب لکھی تھی جو کھیلوں کے حلقے میں کافی دلچسپی سے پڑھی جاتی تھی‘ اس دور میں ابھی ٹیلی ویژن کا ظہور نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ٹیسٹ میچوں کی رننگ کمنٹری ریڈیو پاکستان سے عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی کرتی اور ان کا انداز بیان اتنا دلکش ہوتا کہ کرکٹ کے شائقین دوسرے سب کام چھوڑ کر ریڈیو سیٹ سے کان لگا کر بیٹھ جاتے اور ان کی کمنٹری سنتے۔ ہماری جنریشن کے کئی لوگ انگریزی زبان کا اپنا تلفظ ان کی کمنٹری سن سن کر درست کرتے‘جمشید مارکر تو بعد میں فارن سروس میں چلے گئے اور کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے‘ انہوں نے امور خارجہ پر ایک کتاب بھی لکھی۔البتہ عمر قریشی زندگی کے آخری ایام تک رننگ کمنٹری کرتے رہے۔پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کو درج ذیل امور کی طرف خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ ٹیسٹ میچز ہوں یا چھوٹے دورانیہ کے میچ‘کپتان اور کھلاڑیوں کے انتخاب میں صرف میرٹ اور فزیکل فٹنس کا خیال رکھا جائے‘کسی بھی سفارش بھلے وہ سیاسی نوعیت کی ہو یا کسی پرانے کھلاڑی کی‘ اس کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے۔ بیرونی دوروں پر جانے والے کھلاڑیوں کی مثال ملک کے سفیر جیسی ہوتی ہے‘دورے کے دوران ٹیم کے منیجر کو اس بات کا
خصوصی خیال رکھنا چاہئے کہ وہ بیرون ملک قیام کے دوران شراب نوشی اور دیگر غیر اخلاقی حرکات سے اجتناب کریں۔ماضی میں دیکھنے میں اکثر آیا ہے کہ ہمارے بعض کھلاڑی رات گئے نائٹ کلبوں میں بھی جاتے رہے اور اس کی بڑی وجہ ٹیم کے منیجر کا ان پر عدم کنٹرول تھا‘لہٰذا منیجر کی سلیکشن کے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ ایک اچھا منتظم اور مضبوط اعصاب اور اچھے کریکٹر کا مالک بھی ہو۔ یہ مفروضہ ہے کہ ایک اچھا بلے باز یا اچھا باولر ہی ٹیم کا کپتان ہونا ضروری ہے‘ جب بھارت کے بہترین بلے باز سچن ٹنڈولکر کو بھارتی ٹیم کا کپتان بنایا گیا اور اس کے بوجھ کی وجہ سے ان کی بیٹنگ کا معیار گرنے لگا تو وہ خود کپتانی سے دستبردار ہو گئے اور اس کے بعد ان کے رنز بنانے کی اوسط بھی بہتر ہونے لگی‘اس جذبے کا مظاہرہ نہ بابر اعظم کرسکے اور نہ شاہین شاہ آ فریدی۔