فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم 

  گزشتہ سنیچر کے روز پشاور میں جو آگ لگی اس سے اگر ایک طرف کروڑوں روپے کی مالیت کی پراپرٹی نذر آ تش ہوئی تو دوسری طرف ہزاروں محنت کش جو اس پراپرٹی میں واقع کارخانوں میں روزانہ کی اجرت پر روزی کماتے تھے اب بے روزگارہو جائیں  گے‘  بنیادی طور پر میونسپل کمیٹی یا کارپوریشن کے فرائض منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ہر شہر میں ایک متحرک اور چوبیس گھنٹے فعال فائر بریگیڈ سسٹم چالو حالت میں  چوبیس گھنٹے رکھیں گے‘پر عملاً اک عرصہ دراز سے اس اہم ذمہ داری میں غفلت برتی جا رہی ہے۔ ننانوے فیصد کیسز میں ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی کسی شہر میں آتشزدگی کا کوئی واقعہ ہوا تو انتظامیہ کو لا محالہ یا تو کنٹونمنٹ بورڈ کا فائر بریگیڈ منگوانا پڑا اور یا پھر افواج پاکستان سے مدد لینی پڑی‘کیا وقت نہیں آ گیا کہ اب  ہر صوبائی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر ضلع میں ایک مربوط فائر بریگیڈ سسٹم قائم ہو جس کا عملہ تربیت یافتہ ہو اور اس میں آگ بجھانے کے جدید ترین آلات بھی موجودہوں اور سب سے ضروری بات یہ کہ وہ آگ لگنے کی اطلاع موصول ہونے کے بعد چشم زدن میں جائے وقوعہ تک پہنچ جائیں‘ امریکہ کی اکثر ریاستوں نے تو فائر بریگیڈ کو فوج کی طرز پر ڈھال دیا ہے اور اس کے عملے کو عسکری خطوط پر استوار کیا ہے اور ان کو اسی قسم کی مالی مراعات فراہم کی ہیں جو افواج کو حاصل ہیں یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ فائر بریگیڈ جائے وقوعہ پر اکثر لیٹ پہنچتے ہیں اور ان کے پہنچنے سے پہلے آگ نے تباہی مچا دی ہوتی ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ کا لاہور میں مصنوعی بارش کا اہتمام کرنے کا فیصلہ قابل ستائش ہے‘خدا لگتی یہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں بروقت اقدامات اٹھا رہی ہیں‘ سموگ نے لاہوریوں کے صرف معمولات زندگی کو ہی متاثر نہیں کیا ان کی صحت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔لاہور میں فضائی آ لودگی ملک کے دوسرے شہروں کے لئے بھی لمحہ فکریہ  فراہم کرتی ہے‘ ان کے ارباب بست و کشاد کو ابھی سے حفظ ماتقدم کے طور پر وہ تمام پیشگی اقدامات اٹھا لینے چاہئیں کہ جن سے عوام کو سموگ کی وجہ سے انسانی صحت پر منفی اثرات کا تدارک کیا جا سکے۔امریکہ چین کے خلاف تائیوان کی ہلہ شیری کرنے سے باز نہیں آ رہا حال ہی میں اس نے تائیوان کو دو بلین ڈالرز مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کا جو فیصلہ کیا ہے وہ چین کے سمجھوتے اور اصول کی خلاف ورزی ہے اور اس سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں مزید کشیدگی بڑھے گی۔جوں جوں  نئے امریکہ صدر کے الیکشن کا دن نزدیک آ رہا ہے‘ ٹرمپ اور کاملاہیریس اس کوشش میں ہیں کہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کریں۔ابھی 26وی ترمیم کو جمعہ جمعہ آ ٹھ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ 27ویں ترمیم کی بات سننے میں آرہی ہے‘ بہرحال یہ بات ارباب اقتدار کو پلے باندھ لینی ضروری ھے وہ یہ ہے کہ جس طرح  26ویں ترمیم پیش کرنے سے پیشتر تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی تھی‘اسی جذبے کا مظاہرہ آئندہ بھی پارلیمانی امور میں لازمی ہونا چاہیے۔