جہاں تک سٹریٹ کرائمز کا تعلق ہے‘ اسلام آباد اب دوسرا کراچی بنتا جا رہا ہے‘ اسلحہ کی نوک پر دن دھاڑے شہر کی معروف سڑکوں پر راہ گیروں سے پیسے اور موبائل سیٹ چھینے جا رہے ہیں‘اسے نیویارک کے ایک سابق مئیر روڈی گلیانی جیسے افسرکی ضرورت ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں نیویارک سے کرائمز کو ایسے غائب کیا کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب نیویارک سٹریٹ کرائم ریٹ کے لحاظ سے دنیا میں سر فہرست تھا‘یہ کام مجرموں سے بے رحم قسم کی سختی کرنے کے بغیر نا ممکن ہے اور ان معاشروں میں کافی مشکل ہو جاتا ہے کہ جہاں چھوٹی سی چھوٹی بات پر انسانی حقوق کے نام پر بعض افراد شور شرابہ مچا دیتے ہیں‘جب کوئی پولیس افسر یا سول سرونٹ کرمنلز پر آ ہنی ہاتھ ڈالتا‘جب تک کرمنلز کو سخت سزا دے کر نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا ہماری سڑکیں غیر محفوظ رہیں گی‘ جب رنجیت سنگھ اس خطے میں حکمران تھا اور پشاور میں جرائم کی تعداد کافی بڑھ گئی تھی تو اس نے ایک غیر ملکی mercenary جس کا نام avitebeli تھا پر وہ مشہور ابو طبیلہ کے نام سے پشاور میں ہو گیا تھا کو پشاور کا گورنر لگایااس نے مجرموں کو قرار واقعی سخت سزا دی جس سے پشاور امن کا گہوارہ بن گیا کچھ اسی قسم کی پالیسی ایک فرنگی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جس کا نام تھا نکلسن‘ نے بنوں میں اپنائی کہ جس زمانے میں بنوں کا کرائم ریٹ بہت بڑھ گیا تھا اور جس کے نتیجے میں وہاں پھر کرائم کا گراف کافی گر گیا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کرائم کو بغیر سخت سزا کے عمل کے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔پنجاب کی وزیر اعلیٰ کا یہ فیصلہ کہ لاہور پر مصنوعی بارش برسانے کا فوری بندوبست کیا جائے‘ایک صائب اور بروقت فیصلہ ہے کیونکہ وہاں سموگ خطرناک حد چھو چکا ہے‘نہ صرف یہ کہ اس سموگ سے انسانی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہے‘اس سے لاہوریوں کے روزمرہ کے معمولات زندگی بھی متاثر ہو رہے ہیں‘ چونکہ ابھی سموگ کے پھیلا ؤکا خدشہ ٹلا نہیں‘بہتر ہوگا اگر ملک کے تمام بڑے شہروں کہ جہاں سموگ کے پیدا کرنے والے عناصر موجود ہیں وہاں بھی لاہور کی طرح مصنوعی بارش برسانے کا اہتمام کیا جائے۔ امریکہ کے صدارتی منصب کے امیدوار ٹرمپ امریکہ میں مقیم غیر ملکیوں کے خلاف اپنی تقریروں میں سختی کرنے کا جو عندیہ دے رہے ہیں وہ ان کو الیکشن میں مہنگا پڑ سکتا ہے اور اس سے ان کا ووٹ بنک متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ امریکہ میں غیر ملکیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ پی آئی اے کی طرح ریلوے کا بھی براحال ہے‘ اگلے روز پھر ایک گاڑی کی بوگیاں پٹڑی سے حیدرآباد کے قریب اتر گئیں‘ اس قسم کے حادثات روزانہ کا معمول ہیں‘جو لوگ پاکستان ریلوے کے ارباب بست و کشاد 1980ء سے لے کر اب تک رہے ہیں وہ سب مشترکہ طور پر اس صورت حال کے زمہ دار ہیں کیونکہ 1980 ء سے پیشتر ریلوے کا اتنا برا حال نہ تھا‘جتنا 1980 ء کے بعد سے ہوا ہے‘کیا پی آئی ا ے کی طرح ریلوے کی بھی نجکاری کی جائے گی۔
کیونکہ قومی ائر لائن کی طرح وہ بھی تو ار باب اقتدار سے چل نہیں رہی اور وہ ملک کے عام آدمی کی سواری ہے۔