قبرستانوں میں بعض قبروں کے اوپر نصب کتبے بڑے حقیقت پسندانہ اور معنی خیز ہوتے ہیں مثلاً اگلے روز ہم نے اسی قسم کا ایک کتبہ پڑھا جس کو پڑھ کر یہ احساس ہوا جیسے قبر میں دفن مردہ قبر پر دعا کے واسطے آنے والے ہر فرد سے یہ کہہ رہا ہو۔ ” میں بھی کبھی ایسا ہی تھا کہ جس طرح تم آ ج ہو ‘ کسی روز تم بھی اس طرح ہو جاو¿ گے جس طرح کہ میں آج ہوں “ یہ شعر پڑھ کر ہمیں نہج البلاغہ میں درج یہ فرمان بھی یاد آ گیا کہ ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ موت کیلئے اولاد پیدا کرو برباد ہونے کیلئے جمع کرو اور تباہ ہونے کیلئے عمارتیں کھڑی کرو۔ ہم نے سفید ریش بزرگوں سے اکثر سنا ہے کہ ہر انسان کو مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ قبرستان کا چکر ضرور لگانا چاہئے تاکہ اس میں یہ احساس تازہ رہے کہ ایک دن اس نے بھی وہاں آ کر مٹی کی چادر اوڑھنی ہے ہم نے کئی بزرگ دیکھے ہیں کہ جو اپنی زندگی میں ہی اپنے گھر کے اندر کسی صندوق میں اپنے کفن کا کپڑا اور کچھ رقم کفن دفن کے اخراجات کیلئے رکھ کر صندوق کی چابی گھر کے کسی فرد کے حوالے کر دیتے تھے اس قسم کے لوگ اب ناپید ہیں کیونکہ ہم میں سے اکثر
لوگ دنیا کے معاملات میں اتنے مگن ہو چکے ہیں کہ یہ حقیقت بھلا دی گئی ہے کہ زمیں کے اوپر ہمارا قیام تو چند روزہ ہے اور قیامت تک ہمارا زیادہ قیام دو ضربے دو گز زمین کے اندر ہو گا۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد تازہ ترین اہم قومی اور عالمی معاملات پر ایک نظر ڈالنا بے جا نہ ہو گا ۔ اس ملک میں کئی لوگ شاید افغان ناظم الامور کے اس حالیہ بیان سے اتفاق نہ کریں کہ پاکستان کے خلاف افغان سر زمین کے استعمال کا الزام غلط ہے اسی بیان میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ دراندازی نہیں روک سکتے اور اس بات کو بھی مانا ہے کہ کچھ عناصر مداخلت کرتے ہیں اس اعتراف کے بعد کیوں وہ پاکستان کی عسکری حمایت کے ساتھ یکجا ہو کر ان عناصر کا قلع قمع نہیں کرتے کہ جو بقول افغان ناظم الامور پاکستان میں مداخلت کر رہے ہیں اس قسم کی خالی خولی وضاحتیں کرنے
سے افغان حکمران وطن عزیز کے باسیوں کو مطمئن نہیں کر سکتے ان کو عملی اقدامات اٹھا کر پاکستان سے اپنی دوستی کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا ان کو بارڈر مینجمنٹ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا اور ان افغانیوں کو نکیل ڈالنا ہو گی جو بھارت کی ایما پر پاکستان کے اندر انتشار پھیلاتے ہیں۔ سفارتی محاذ پر وزیراعظم روس کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری لانے اور ملک کی معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہونے کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں پر ان کے ثمرات عام آ دمی تک پہنچنے میں کچھ عرصہ درکار ہو گا اس لئے اس کچھ عرصے کے دوران ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ کسی سے بھی کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو کہ جس سے ملک میں کسی قسم کا بھی انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو بڑی مشکل سے ملک کی معیشت کی گاڑی پٹڑی پر پھر چڑھی ہے۔ یہ ہمارے متعلقہ ارباب اختیار کی سستی اور نااہلی اگر نہ تھی تو اور کیا تھی کہ ایران نے پاکستان کے خلاف عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف اس بنیاد پر مقدمہ دائر کیا کہ پاکستان نے اپنی حدود میں گیس پائپ لائن کا حصہ مکمل نہیں کیا اب اس مقدمے بازی پر پاکستان کو وکلا کی فیس کے طور پر قومی خزانے سے ایک اچھی خاصی رقم خرچ کرنا پڑے گی۔