اکثر لوگ پوچھتے ہیںکونسی امریکی سیاسی پارٹی پاکستان کے حق میں ہے‘ ری پبلکن یا ڈیموکریٹک‘ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دونوں میں رتی بھر فرق نہیں‘ ہر امریکی صدر خواہ وہ ان دونوں میں کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو‘ یہ دیکھتا ہے کہ پاکستان میں جو قیادت ایوان اقتدار میں ہے وہ اس کی ڈگڈگی پر ناچے گی یا نہیں ۔بھلے کوئی ڈکٹیٹر ہی کیوں نہ وطن عزیز میں اقتدار میں ہو‘ اگر وہ عالمی امور میں امریکا کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے تو وہ امریکہ کو قبول ہوتا ہے‘ وہ اس کی آ نکھ کا تارہ ہوتا ہے اور اس کے برعکس اگر جمہوری انداز میں چنا گیا حکمران کیوں نہ ہو ‘پر وہ اگر امریکہ کے اشارے پر نہ ناچتا ہو تو اسے وہ سازش کے ذریعے ایسے اقتدار سے نکال باہر پھینکتا ہے جیسے مکھن میں سے بال ‘امریکہ سے ٹکر لینا ہر کسی کا کام نہیں ‘دل گردے والا حکمران ہی یہ کام کر سکتا ہے ‘جیسا کہ کیوبا کا فیڈل کاسترو تھا ‘ایران کا امام خمینی ‘مصر کا جمال عبدالناصر ‘لبیا کا قذافی ‘جنوبی افریقہ کا نیلسن منڈیلا ‘شمالی ویت نام کا ہون چن من ‘پاکستان کا زیڈ اے بھٹو‘ سعودی عرب کا شاہ فیصل‘ چین کا ماﺅ زے تنگ ‘انڈونیشیا کا سوئیکارنو وغیرہ ۔ ان لیڈروں میں سے کئی نے اپنی جان تک گنوا دی پر امریکہ کے آ گے جھکے نہیں۔ ٹرمپ اور کامیلا کے درمیان دو تین دنوں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے والا ہے ‘دونوں کی عوامی مقبولیت میں انیس بیس کا ہی فرق ہے۔ ان ابتدائی سطور کے بعد چند دیگر اہم قومی اور عالمی امور کا ہلکا سا تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔اگلے روز لندن میں مقیم پاکستانیوں نے وطن عزیز کے ایک اہم ادارے کے سابقہ رکن کی گاڑی پر جو مبینہ حملہ کیا اس کے بارے میں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے ورکرز کی ایسی تربیت کریں کہ وہ اپنے گندے کپڑے عوام کے سامنے اور وہ بھی غیر ممالک میں نہ دھویا کریں۔ وزیر اعظم کی ان تھک کوششوں کے طفیل ملک کی معیشت کی گاڑی پٹڑی پر چڑھ تو رہی ہے‘ پر ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ملک کے اندر امن عامہ کے قیام کی بہت ضرورت ہے کیونکہ اگر ملک کے اندر انتشار کی فضا قائم ری تو بیرونی سرمایہ کار یہاں سے بوریا بستر باندھ کر بھاگ جائیں گے اور وزیر اعظم کی تمام کاوش پر پانی پھر جائے گا۔ اسرائیل فلسطین اور ایران پر جنگ کے چھائے ہوئے بادل ابھی چھٹے نہیں ہیں اور نہ امریکہ تائیوان اور یوکرائن کی ہلہ شیری سے باز آ رہا ہے اور جب تک یہ صورت حال قائم رہتی ہے‘ تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ دنیا کے سر پر موجود رہے گا۔ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل جاری ہے ‘اس میں نہایت احتیاط لازم ہے۔ ماضی میں قیمتی قومی اثاثوں کو اونے پونے ارباب اقتدار اپنے منظور نظر افراد کے حوالے کرتے رہے ہیں۔ امید ہے قومی ائر لائن کی نجکاری کے عمل میں ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی ‘پی آئی کے بعد ایک دوسرے سفید ہاتھی پاکستان سٹیل ملز کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرنا ضروری ہوگا ‘وہ بھی کھربوں روپے کی ملکیت ہے۔ تحقیقاتی جرنلزم سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ان دونوں اداروں کی نجکاری کے عمل پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے امن مشنز نے جن میں بشمول پاکستانی فوجی دستے شامل ہوتے ہیں‘ کئی ممالک میں نئی جنگیں چھڑنے کو روکا بھی ہے‘ لہٰذا اس کی کارکردگی کی بیلنس شیٹ میں منفی پوائنٹس کے ساتھ ساتھ پلس پوائنٹس بھی موجود ہیں ‘دنیا میں اگر کسی بھی جگہ زلزلوں‘ سیلابوں یا دیگر قدرتی آفات سے تباہی پھیلتی ہے تو اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے وہاں مناسب امداد لے کر فوراً پہنچ جاتے ہیں ۔گوادر کی 97ایکڑ اراضی خالی کر کے قبضہ نہ دینے پر چین نے جو اظہار تشویش کیا ہے اس کا حکومت کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے ۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ ہماری بیوروکریسی میں ابھی تک سرخ فیتے کی لعنت ختم نہیں ہوئی جس سے اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک دل برداشتہ ہو جاتے ہیں