دو قسم کا اسلحہ ہوتا ہے‘ایک کو غیر ممنوعہ بور کا اسلحہ کہا جاتا اور دوسرے کو ممنوعہ‘ ثانی الذکر اسلحہ کے استعمال سے ایک سے زیادہ لوگوں کو ایک ہی فائر سے ہلاک کیا جا سکتا ہے تب ہی تو اس قسم کے اسلحہ کو مہلک قرار دیا گیا ہے‘ جیسا کہ کلاشنکوف‘ اس قسم کے اسلحہ کے استعمال سے ملک میں درجنوں لوگ روزانہ لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔وطن عزیز میں اس قسم کا اسلحہ صرف امیر زادوں کے زیر استعمال دیکھا جاتا ہے‘وہ عام لوگوں پر رعب ڈالنے کے واسطے اپنے ساتھ جو باڈی گارڈ پھراتے ہیں وہ اس قسم کے اسلحہ سے لیس ہوتے ہیں‘یہ ہی ہیں وہ لوگ کہ جو اس قسم کے اسلحہ کی نمائش اور استعمال پر پابندی لگانے کے خلاف ہیں۔ اگر ان میں سے کسی دشمن دار کو اپنی حفاظت کے واسطے اسلحہ رکھنا درکار ہے تو اس کی اس ضرورت کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ غیر ممنوعہ اسلحہ کا لائسنس دے کر پورا کرسکتا ہے۔ اگرحکومت ملک میں سال بھر میں فرقہ واریت یا کسی اور تنازعے میں ہلاک ہو نے والے واقعات کی تہہ میں جائے تو اس پر ظاہر ہوجائے گا کہ ان تنازعات میں زیادہ اموات کی وجہ کلاشنکوف جیسے مہلک اسلحہ کا استعمال ہے۔ اصولی طور پر تمام قسم کا ممنوعہ بورکا اسلحہ صرف اور صرف افواج پاکستان‘ پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کے پاس ہونا چاہیے۔پرائیویٹ ہاتھوں میں اس کاکیا کام‘ حکومت ممنوعہ بور کے اسلحے کی لعنت سے جب تک ملک کو صاف نہیں کرے گی‘ وطن عزیز میں ان سے کھیلی جانے والی خون کی ہولی اور قتل و غارت کا خاتمہ نا ممکن ہوگا ۔ فوری نوعیت کی ضروری قانون سازی کرنے کے بعد حکومت ایک اعلان عام کر سکتی ہے کہ جسکے پاس کلاشنکوف موجود ہے اسے وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنے نزدیکی تھانے میں جمع کرادے اور متعلقہ تھانیدار اسے اسلحہ جمع کرانے کی رسید دے گا۔ اعلان میں ایک خاص تاریخ کو واضح کیا جائے کہ اگر اس تاریخ کے بعد کسی کے پاس کوئی ممنوعہ بور کا اسلحہ پکڑا گیا تو اسے دس سال تک فیدکی سزا دی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی دس لاکھ روپے جرمانہ بھی اسے ادا کرنا ہوگا۔اس کے بعد اگلے مرحلے میں جمع شدہ اسلحہ کی مارکیٹ ویلیو ایک کمیٹی کے ذریعے متعین کرا کر اس اسلحہ کی رقم کو اسلحہ تھانے میں جمع کرانے والے ان کے مالکان کو ادا کر دی جائے اور جمع شدہ اسلحہ کو افواج پاکستان اور پولیس کے حوالے کر دیا جائے۔ اس کے بعد اگر کسی فرد کے پاس ممنوعہ بور کا اسلحہ بشمول کلا شنکوف پایا جائے تو اسے نشان عبرت بنانے کے لئے سخت سزادی جائے۔اس معاملے میں سختی کر کے ہی ممنوعہ بور کے اسلحے سے ملک پاک کیا جا سکتا ہے۔سموگ کی شکل میں وطن عزیز بھی مشکل میں مبتلا ہو چکا ہے اسے ہم عذاب اگر نہ کہیں تو پھر کیا کہیں۔ قدرتی آ فت اسی طرح ہی تو آ تی ہے۔ من حیث القوم کون سا غلط کام ایسا ہے جو ہم نہیں کر رہے‘منشیات ہم فروخت کر رہے ہیں‘اشیا خوردنی میں ملاوٹ کر کے خلقت خدا کو ہم بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں‘ وغیرہ۔ رشوت ستانی چور بازاری میں ہم نے ید طولیٰ حاصل کیا ہوا ہے‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسانی خون ہم بہا رہے ہیں۔ ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم نہیں اور یہ شعر اس پر صادق آتا ہے کہ
زردار کی تربت ہے بھی کمخواب کی چادر
مفلس کی میت بھی ترستی ہے کفن کو
ہم سموگ کا کبھی بھی شکار نہ ہوتے اگر ہمارے اکابرین اور ارباب بست و کشاد نے ایسے اقدامات شروع سے اٹھائے ہوتے کہ جو فضائی آ لودگی کا سبب بنتے ہیں‘ اگر دھڑا دھڑ ملک میں موٹر کاروں کا کلچر عام کرنے کے بجائے ہم نے عوام کی آمدورفت کے واسطے ایک منظم انڈر گراؤنڈ ریلوے سسٹم کا نظام مرتب کیا ہوتا اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والی گیس سے نمٹنے کا خاطر خواہ بندوبست کیا ہوتا پر دوراندیشی تو ہمارے ارباب اقتدار کا کبھی شیوہ رہا ہی نہیں۔