ہم سال نو میں قدم رکھ چکے اس کا آغاز کوئی زیادہ تسلی بخش نظر نہیں آ رہا کیونکہ نہ اسرائیل فلسطین میں اپنی چیرہ دستیوں سے باز آ رہا ہے اور نہ بھارت کشمیر میں اور نہ امریکہ تائیوان اور یوکرائن کی بالترتیب چین اور روس کے خلاف ہلہ شیری کرنے سے اور اسرائیل اور امریکہ کے یہ وہ کام ہیں کہ جو تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں‘ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر تو اعتبار نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کو کمزور ہونے سے بچانے کے لئے اپنا کوئی کردار ادا کریں البتہ چین اور روس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے اس کو مضبوط اور با اثر بنانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائیں اس کے لئے سفارتی محاذ پر چین اور روس اپنے ہمنوا ممالک کے اشتراک عمل سے ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کر کے اس کے منشور کو ری وزٹ کر سکتے ہیں اور اس میں ضروری اصلاحات لاکر اس کو سیاسی اور انتظامی طور پر مضبوط کر سکتے ہیں ورنہ خدشہ یہ ہے کہ یہ ادارہ بھی لیگ آف
نیشنز کی طرح غیر موثر ہو کر اسکی طرح اپنی موت نہ مر جائے باوجود اس کی بعض کمزوریوں کے زمانہ امن میں اقوام متحدہ نے افریقہ اور دیگر بر اعظموں میں اپنے امن مشنز بھیج کر کئی ممکنہ جنگوں کو پھیلنے سے روکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں کھانے پینے کی چیزوں کے قحط اور جان لیوا بیماریوں کی وباو¿ں کو روکنے کے لئے ضروری طبی امداد کا بندوبست کیا ہے جوقابل تعریف ہے کھیلوں کی دنیا اور فلم انڈسٹری سے منسلک بعض افراد کا دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتا ہے یہ لوگ دھن کے حساب سے برلا ٹاٹا اور سہگل جیسے
افراد سے کم نہیں جن گھروں میں یہ لوگ قیام کرتے ہیں وہ ماضی کے رو¿سا اور نوابوں کے محلات سے کسی طور کم نہیں ان کے زیر استعمال رولز رائس جیسی قیمتی گاڑیاں ہوتی ہیں آج ان دونوں پیشوں کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ منافع بخش پیشوں میں ہوتا ہے دولت اگر جائز طریقے سے حاصل ہو تو کوئی بری بات نہیں پر اس کا مصرف عوام کے فلاحی کاموں میں ہونا ضروری ہے کسی زمانے میں برصغیر میں آباد پارسی دولت مند طبقہ جن شہروں میں آ باد تھے مثلاً کراچی‘ بمبئی یا کلکتہ تو وہاں جگہ جگہ انہوں نے عوام کے لئے ہسپتال ڈسپنسریاں اور سکول کھول رکھے تھے اور وہ حاجت مند لوگوں کی مختلف انداز اور طریقہ کار سے مالی امداد بھی کیا کرتے تھے عوامی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا وہ اپنے اللوں تللوں پر کم اور رفاعی
اداروں پر زیادہ خرچ کرتے تھے اس لئے تاریخ کی کتابوں میں آج بھی ان کا نام زندہ جاوید ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے رواں سال کی توانائی شعبے کی سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق بجلی کمپنیاں نقصانات کم اور وصولیاں بڑھانے میں ناکام رہیں۔ نیپرا کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بڑھتے نقصانات اور وصولیاں کم ہونے سے ایک سال میں590 ارب 51کروڑ روپے کا نقصان ہوا، مختلف ٹیکسز کے باعث 7 روپے یونٹ میں پڑنے والی بجلی صارفین کو 45 روپے یونٹ میں دی جارہی ہے، 38 روپے سے زائد کے ٹیکس ہیں‘ ہماری متعلقہ ذمہ داران سے گزارش ہے کہ وہ بجلی کی قیمتوں میں حقیقی معنوں میں کمی کے لئے اقدامات اٹھائیں اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ سستی بجلی سے نہ صرف صنعت کا پہیہ چلے گا بلکہ عوام کو بھی بڑا ریلیف مل جائے گا جو مہنگی بجلی کے ہاتھوں انتہائی پریشان ہیں۔