اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر


اس سے پہلے کے ہم مختلف شعبہ ہائے زندگی  میں نام کمانے والے ان بڑے لوگوں کا ذکر کریں۔ جن کا خمیر پشاور کی مٹی سے اٹھا ہے‘ اس حقیقت کا ذکر ضروری ہے کہ پشاور کو  جنوبی ایشیا کا   قدیم ترین زندہ شہر قرار دیا جا چکا ہے اس  شہر کو  کئی کئی مرتبہ مختلف حملہ آوروں نے تاراج کیا پر اس کی vivacity یعنی جوش وخروش نے اسے مٹنے نہ دیا‘ہم ماضی قدیم میں نہیں جاتے  اس کالم کے محدود حجم کے پیش نظر ماضی قریب کے پشاور اور اس کی مٹی سے جنم لینے والوں کا ہلکا سا تذکرہ کریں گے کہ جو اپنے اپنے پیشے میں یکتا تھے مشکل یہ ہے‘کن لوگوں اور طبقوں  کے ناموں سے اس کالم کا پیٹ بھرا جائے۔ چلئے ایوان اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ان  افراد کا ذرا  پہلے تذکرہ کر لیتے ہیں کہ جن سے ہماری یاد اللہ تھی‘ افضل بنگش‘ارباب سکندر‘ اجمل خٹک‘میاں  ضیا ء الدین  فضل محمود‘ سیف الرحمن کیانی‘ خان مکرم خان‘ اشرف خان پروفیسر امداد حسین‘فارغ بخاری‘  پیر بخش خان‘ غلام احمد لوند خوڑ‘  سردار عبد الرشید خان آ غا خان بابا خان‘ میجر جنرل زاہد عابد‘ لیفٹیننٹ جنرل افضال‘ میاں اقبال اور لالہ ایوب وہ قد آ ور سیاسی ادبی اور سماجی شخصیات تھیں جنہیں ہمیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ لانبے قد کے شعلہ بیان افضل بنگش اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی دور میں نیشنل عوامی پارٹی سے منسلک رہے اور بعد میں انہوں نے مزدور کسان پارٹی کے حوالے سے ملکی سطح پر شہرت حاصل کی‘ سیاسی بیداری کی جو روح انہوں نے کسانوں میں پھونکی تھی اس کے اثرات آج بھی جا بجا ملتے ہیں‘ ارباب سکندر خان جو خیبر پختونخوا کے گورنر بھی رہے نہایت حلیم طبع اور متوازن شخصیت کے مالک تھے خیبر بازار پشاور شہر میں ایک عمارت کے بالاخانے میں ان کادفتر ہوا کرتا تھا جہاں وہ وکالت کے لئے تیاری کیاکرتے تھے ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ایسے بے ضرر شخص کو کوئی قتل بھی کر سکتا  ہے‘اجمل خٹک کو ہم نے بطور ایڈیٹر دیکھا تھا‘ وہ روزنامہ انجام پشاور کے ادارتی بورڈ کے ساتھ منسلک تھے‘وہ خیبر بازار میں افضل بنگش کے دفتر میں بھی اکثر پائے جاتے۔میاں ضیاء الدین شام کے وقت جانگیا اور شرٹ میں ملبوس خیبر بازار پشاور شہر کی ایک عمارت کے بالاخانے میں واقع اپنے دفتر  پچھلے پہر اپنی مرسڈیز میں  روزانہ آ تے جہاں وہ وکالت کا کام کرتے‘گوہم  نے تو کبھی بھی ان کو کسی مقدمے کی تیاری کرتے نہیں دیکھا‘ یہ وہی میاں ضیاء الدین تھے جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں لندن میں پاکستان کے سفیر تھے‘ فضل محمود فینسی پرانے مسلم لیگی تھے‘ بازار بزاز اں پشاور  شہر میں ان کی کپڑے کی دکان تھی‘ پشاور شہر میں جن افرادنے پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی تھی ان میں سیف الرحمان کیانی ایڈوکیٹ شامل تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو سعودی عرب اور شام میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیجا تھا اور بعد میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر خیبر پختونخوا کی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئے تو وہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر بنے تھے‘ سیف الرحمان کیانی جیسے دیانتدار  سیاست دان اب چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو نہیں ملتے‘وہ دو ملکوں میں سفیر رہے اور صوبائی اسمبلی کے سپیکر بھی‘ پر ان کا اپنا ذاتی گھر نہ تھا اور نہ گاڑی اور دال دلیا کمانے کے وا سطے انہیں پشاور میں ایک پرائیوٹ لاء کالج میں بطور لیکچرار کام کرنا پڑتا میجر جنرل زاہد عابد اور آ غا خان بابا خان کا شمار   پشاور شہر کی ہر دلعزیز شخصیتوں میں ہوتا تھا اسی طرح پشاور صدر کی میاں اقبال اور لالہ ایوب جیسی بلند پایہ شخصیات تھیں میاں اقبال کے چھوٹے بھائی میجر جنرل افضال اگر فضائی حادثے میں جاں بحق  نہ ہوتے تو وہ  1992ء میں چیف آف آرمی بننے والے تھے ‘اگر آپ کھیل کے میدان پر نظر ڈالیں تو سکواش کی دنیا میں پشاور کے مضافاتی علاقے کے مکینوں ہاشم خان‘ اعظم خان‘ روشن خان ہدایت جہان‘محب اللہ اور قمر زمان اور بعد میں ان کے شاگردوں جہانگیر خان اور  جان شیر خان نے نام پیدا کیا اور دنیائے سکواش پر نصف صدی تک حکمرانی کی ہے‘اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی‘ پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے دلیپ کمار‘  راجکپور‘پرتھوی راج‘پریم ناتھ ونود کھنہ‘ انیل کپور نے بھی فلم انڈسٹری کو چار چاند لگائے‘کریم پورہ پشاور شہر کے پیدائشی گل جیسا مصور اور سنگتراش پھر پیدا نہ ہوا۔