فرنگیوں نے 1947ء میں بعض بڑی اچھی چیزیں ہمیں ورثے میں چھوڑی تھیں کیوں نہ آج اس کالم میں ان پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ان کو مزید بہتر بنانے کے بجائے ہم نے ان کی بیخوں میں پانی دے دیا‘ پہلے ذرا سول سروس کا تذکرہ کر لیتے ہیں اس میں بھرتی کا جو نظام انہوں نے چھوڑا تھا قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصے تک اس پر عمل درآمد ضرور ہوتا رہا‘ پر جوں ہی اس میں سیاسی مداخلت شروع ہوئی گڈ گورننس کا دیوالیہ نکل گیا‘ سول سروس کے کئی حصے تھے جیسا کہ سول ایڈمنسٹریشن اور ریونیو ایڈمنسٹریشن کو بھی سول ایڈمنسٹریشن کہا جا سکتا ہے سول ایڈمنسٹریشن میں وفاقی اور صوبائی سطح پر کافی حد تک افسروں کی بھرتی پبلک سروس کمیشنوں کے مقابلے کے امتحانوں کے ذریعے ایک جامع طریقے سے ہوا کرتی اور وفاق میں اسسٹنٹ کمشنر اور صوبوں میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے ناموں سے بھرتی ہوتی‘اولالذکر کو عام فہم زبان میں اے سی اور ثانی الذکر کو ای اے سی کہا جاتا‘کسی بھی فرد کو ضلع کا ڈپٹی کمشنر نہ لگایا جاتا اگر اس نے کم ازکم تین تین برس تک بطریق احسن بطور اے سی کام نہ کیا ہوتا اور اسی طرح کسی افسر کو کسی ڈویژن کا کمشنر تعینات نہ کیا جاتا‘ اگر اس نے کم ازکم دو اضلاع کو بطریق احسن بطور ڈپٹی کمشنر نہ چلایا ہوتا‘جس دن سے ان باریکیوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا گیا اور سیاسی سفارش پر اضلاع اور ڈویژنوں کو ان آسامیوں پر تعنیاتی شروع ہو گئی اس دن سے گڈ گورننس کا جنازہ اٹھ گیا ملک میں ریونیو کا سسٹم چلانے کے واسطے لینڈ ریونیو ایکٹ اور لینڈ ایڈمنسٹریشن مینیول ایک تفصیلی طریقہ کار درج ہے جس میں پٹواری سے لے کر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو تک کے فرائض منصبی درج ہیں‘ پر ان پر ایک زمانے سے من و عن شاذ ہی عمل ہوا ہے چونکہ ریونیو کے نچلے کیڈرز کے اہلکاروں کے کام پر کڑی نظر نہیں رکھی جا رہی اور پٹواری سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک کہ جو ڈسٹرکٹ ریونیو کلکٹر بھی ہوتا ہے کی پوسٹنگ میں سیاسی سفارش کا بڑا عمل دخل ہے ریونیو کے محکمے میں بے قاعدگیوں کا زور ہے ابھی تک کسی بھی ذمہ دار سینئر افسر نے زمینداروں کو کمپیوٹرائزیشن کے بارے میں اس کے خدو خال سے آ گاہ نہیں کیا اس لئے وہ اس کے بارے میں اندھیرے میں ہیں ایک دور تھا جب ہر ماہ ڈپٹی کمشنرز باقاعدگی سے ڈسٹرکٹ پرائس ریویو کمیٹی کی میٹنگز کی صدارت کرتے جو تاجروں‘ عوامی نمائندوں‘ وکلاء اور صحافیوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی جو ضلع بھر میں اشیائے خوردنی کی قیمتوں کا تعین کرتی اور اس کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی تاجر اشیائے صرف کی قیمت میں اضافہ نہیں کر سکتا تھا اب ایک عرصہ دراز سے تاجروں کو کھلی چھٹی ہے کہ اشیا ئے خوردنی کی قیمتوں کا تعین کرنے میں وہ جو بھی من مانی کریں کر سکتے ہیں کسی دور میں ہر ضلع میں سول ڈیفنس کا ایک فعال ادارہ بھی ڈی سی کی زیر نگرانی کام کیا کرتا تھا جو کسی بھی ناگہانی حادثہ مثلاً آ تشزدگی کو بجھانے یا زلزلے کے متاثرین کی امداد کرتا ‘ڈپٹی کمشنر سول ڈیفنس کے ادارہ میں ایک منظم طریقے سے عوام میں سے افرادی قوت کو بھرتی کرتا اور یہ سول ڈیفنس کے رضا کار کہلاتے‘نہ جانے اس کار آمد ادارے کو کیوں ختم کر دیا گیا‘بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ جب خیبرپختونخوا کو وزیر اعلیٰ سمیت کل چھ افراد نے بطریق احسن کئی برسوں تک چلایا ہے اور سرکاری گاڑیوں کے استعمال میں بھی اسراف کے بجائے قناعت کا مظاہرہ کیا ہے یہ اس زمانے کی بات تھی جب نیانیا پاکستان بنا تھا اور قومی خزانے کی حالت اتنی ہی مخدوش تھی کہ جتنی آج کل ہے سرکاری گاڑیاں پانچ تھیں اور وزیر اعلیٰ سمیت صوبائی کا بینہ کے اراکین چھ اتنے پیسے نہ تھے کہ ایک نئی گاڑی خریدی جا سکتی آج قوم ارباب اقتدار سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ ہر قسم کے غیر ضروری اخراجات پر بریک لگائیں بھلے ان کا تعلق وفاقی حکومت سے ہو یا صوبائی حکومت سے‘ غیر ملکی دوروں سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے کہ جن پر بے پناہ خرچہ اٹھتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب سیاستدان کسی معقول وجہ کے بغیر اپنی پرانی پارٹی کو چھوڑ کر نئی پارٹی میں جانا معیوب سمجھتا تھا اور اس قسم کے بندے کو الیکشن میں پھر ووٹرز بھی معاف نہیں کرتے تھے‘ اب یہ خاصیتیں نہ سیاست دانوں میں باقی رہی ہیں اور نہ ووٹ ڈالنے والوں میں‘ ماضی میں ایک مرتبہ کچھ عرصے کے واسطے انگلستان کے سابق وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل نے اپنی پرانی سیاسی پارٹی کو کچھ عرصے کے لئے چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو ان کو یہ عمل سیاسی طور پر بڑا مہنگا پڑا تھا اور ایک لمبی مدت تک انگلستان کے سیاسی حلقوں نے ان کے لتے لئے جاتے رہے تھے ان چند جملہ ہائے معترضہ کے بعد درج ذیل اہم امور کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔ محمود خان اچکزئی کی اس بات میں وزن ہے کہ چین کی وساطت سے افغانستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے جا سکتے ہیں کیونکہ افغانستان کے حکمران چین کی بات مانیں گے کہ آج چین اور افغانستان ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں افغانستان کو اپنی معیشت کو سہارا دینے کے واسطے چین کی مالی امداد کی ضرورت ہے تو چین کو اس خطے میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل تکمیل کے واسطے امن کی‘ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ تو اس خطے میں انتشار چاہتا ہے تاکہ چین یہاں پر اقتصادی طور پر اپنے قدم نہ جما سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔