لائبریری کلچر کا فروغ ضروری ہے

 کسی بھی تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک کی بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہاں کے ہر شہر میں قدم قدم پر آپ کو لائبریریاں نظر آ تی ہیں اور ان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہر مضمون پر لکھی جدید اور قدیم ترین ہزاروں کتابیں پڑھنے کو دستیاب ہوتی ہیں جن کی دیکھ بھال کے واسطے سند یافتہ لائبریرین موجود ہوتے ہیں‘برٹش میوزیم لائبریری لندن اس لئے منفرد ہے کہ اس میں ہر مضمون پر جتنی نایاب کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے وہ شاذ ہی دنیا کے کسی اور شہر کی کسی لائبریری میں موجود ہو‘ اور اس کی غالباً بڑی وجہ یہ ہے کہ سلطنت برطانیہ کا کسی زمانے دنیا بھر میں راج تھا اور اس میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اس کے ارباب اقتدار نے تعلیم کے فروغ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا کہ جس میں ہر ملک کے معاملات پر کتابوں کی اشاعت بھی ہوتی رہی اور لائبریری کلچر کا پھیلاؤ بھی آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے موجودہ تعلیمی نظام اور تعلیمی کورسز میں ایسا سسٹم رائج کریں کہ جس میں طلباء کو امتحان میں پرچہ حل کرنے کے واسطے لا محالہ کئی کتب کو پڑھنا پڑے اور ہمارے ایجوکیشن سسٹم سے رٹا سسٹم کا خاتمہ ہو ایسا کرنے سے طلباء میں لائبریری کلچر عام ہوگا‘نیز ملک کی لائبریریاں چلانے کے واسطے تربیت یافتہ لائبریرین کی ایک ورک فورس کو بھی تیار کیا جائے‘ہر تعلیمی ادارے میں لائبریری کا قیام لازمی قرار دیا جائے اور ہر سال ضروری نئی کتب خریدنے کے واسطے‘ تعلیمی اداروں کے پرنسپلز‘ کو مناسب فنڈز فراہم کئے جائیں ان چند ابتدائی کلمات کے بعد امن عامہ سے متعلق ایک اہم مسئلہ کا ذکر ہوجائے۔ اس بات میں تو دو آراء کی گنجائش ہی نہیں کہ جب تک وطن عزیز کو ممنوعہ بور کے اسلحہ کی لعنت سے پاک نہیں کیا جاتا ملک سے دہشت گردی کے واقعات سے لوگ لقمہ اجل بنتے رہیں گے نہ جانے وزارت داخلہ کے کرتا دھرتاؤں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی اب تو ملک کی شاہراہیں بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں رہیں بلوچستان کی سڑکیں آج جس قدر سفر کے لئے غیر محفوظ ہو چکی ہیں شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھیں۔ عالمی امور میں جس قدر چین اور روس یک جان دو قالب ہوتے جا رہے ہیں اس قدر امریکی پالیسی سازوں کی نیندیں حرام ہوتی جا رہی ہیں گو روس کا سربراہ پیوٹن بھی بڑے قوی اعصاب کا مالک ثابت ہوا ہے پر اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ آج جین میں جو لیڈر بر سر اقتدار ہیں ان کی سیاسی تربیت میں ماؤزے تنگ اور چو این لائی کی دی ہوئی تربیت کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے یہ ان کی سیاسی بصیرت دور اندیشی سیاسی ادراک و فہم اور سیاسی برداشت کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں آج چین اور روس پر مشتمل کمیونسٹ بلاک ایک ایسی مضبوط قوت بن چکا ہے کہ اب سیاسی مبصرین کے مطابق امریکہ نہیں بلکہ چین اور روس کا دنیا کی معیشت پر راج ہو گا۔وطن عزیز میں بھی قناعت پسند قسم کے بعض درویش صفت حکمران پیدا ضرورہوئے ہیں پر وہ خال خال تھے انھوں نے سرکاری خزانے کوفضولیات میں خرچ کرنے سے اجتناب کیا اور سادگی کا چلن پھیلایا اس ضمن میں جو چند نام اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں ان میں درج زیل لوگ شامل ہیں محمد علی جناح‘ لیاقت علی خان اورنگزیب خان گنڈہ پور‘ملک معراج خالد‘ غلام اسحاق خان شامل ہیں جنہوں نے اپنے اقتدار کے دوران کوئی دھن نہ بنایا اور نہ اسراف کا کبھی مظاہرہ کیا اقتدار میں آ نے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ حکمران کتنے پانی میں ہیں اپوزیشن میں بیٹھ کر ہر کوئی پارسائی کے دعوے کرتا ہے پر کرسی پر بیٹھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنا  راست گو ہے اب تو عوام میں اتنا شعور ضرور ہونا چاہیے کہ وہ ان میں تمیز کر سکیں کیونکہ 75برس سے وہ ان کو بھگت رہے ہیں۔ یقین مانئے اس وقت عوام کو اب اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کون سا نظام ہونا چاہئے‘وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں دو وقت کی باعزت روٹی ملے‘بیمارہونے کی صورت میں علاج معالجہ کی سہولت ہو اوربچوں کے واسطے تعلیم کا حصول آسان ہو‘انہیں اپنے مسائل کے حل کے لئے دفاتر کی طواف نہ کرنا پڑے‘یہ امور جو نظام بھی پورے کر سکے عوام اسی پر اکتفا کرنے کے لئے تیار ہیں۔