بدلتے حالات

 صدر ٹرمپ نے اب تک جن اہم نوعیت کی انتظامی آ سامیوں پر جن افراد کی تعیناتی کی ہے اسے دیکھ کر تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا ذہنی  رحجان کس طرف ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ اس کا جھکا ؤبھارت کی طرف ہو گا‘لہٰذا یہ باور کرنا کہ امریکہ مستقبل میں بھارت کے بجائے پاکستان کو ترجیح دے گا‘ درست مفروضہ نہیں لگ رہا‘ وہ پاکستان کے ارباب اقتدار سے کہے گا کہ وہ امریکہ کی ہرہاں میں ہاں ملائیں وہ پاکستانی حکمرانوں سے اسی قسم کی پالیسی اختیار کرنے کی توقع رکھے گا جو ضیاء  الحق نے اپنائی تھی‘بصورت دیگر وہ سازشوں کے ذریعے ان کا دھڑن تختہ کر سکتا ہے کہ یہ اس کا پرانا طریقہ ہے‘اسی طرح اسرائیل  کے ساتھ بھی امریکہ  بدستور شیرو شکر رہے گا۔ان حقائق کے پیش نظر وطن عزیز کے ارباب اقتدار کے پاس کوئی چارہ بجزاس کے نہیں رہ جاتا کہ وہ چین اور روس کے ساتھ بنا کر رکھیں کیونکہ ٹرمپ کی کوشش ہو گی کہ وہ پاکستان اور چین اور پاکستان اور روس کے درمیان اچھے تعلقات ختم کرنے کے واسطے مختلف قسم کے حربے استعمال کرے‘ بھارت بھی چین کا دوست نہیں‘اس لئے وہ بھی پاکستان اور ان تمام ممالک کے خلاف ریشہ دوانیوں میں شریک ہوگا جو چین کے دوست ہوں گے‘ گزشتہ الیکشن میں جس ولولے سے مودی سرکار کی شہ پر امریکہ میں مقیم بھارتیوں نے ٹرمپ کی کھلم کھلا حمایت کی تھی‘وہ اظہر من الشمس ہے‘ آج اگر کابل کی موجودہ حکومت کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے تو اس میں بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔1947ء سے لے کر آج تک بھلا کس افغانی حکومت نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کی ہے‘ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ افغانستان نے بھارت کی شہ پر فاٹا میں بعض قبائلی مشران کی وفاداریوں کو خرید کر پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی‘ یہ اور بات ہے کہ قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد ان کے جھانسے میں نہ آ ئی اور بھارت پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہو سکا‘حامد کرزئی تو اس قدر بھارت نواز تھا کہ اس کے ہاں جب بچے کی ولادت ہو نے لگی تو اس نے اپنی اہلیہ کو پاکستان کے بجائے بھارت کے ایک ہسپتال میں بھجوایا تھا‘ بھارت افغانستان کے خون میں رچ بس چکا ہے‘ امریکہ جس طرح مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل عام پر چپ ہے بالکل اسی طرح کشمیر میں اس نے بھارت کی بربریت پر بھی اپنی آ نکھیں موند رکھی ہیں۔کہا یہ جا رہاہے کہ نریندرا مودی اس وقت امیت نامی بھارتی جنتا پارٹی کے ایک لیڈر کے ہاتھوں میں کھیل رہاہے جو کٹر قسم کا متعصب ہندو ہے‘بالکل اسی طرح کہ جس طرح ماضی قریب میں انڈین کانگریس پارٹی میں سردار پٹیل تھا جس پر یہ الزام ہے کہ اس کا مہاتما گاندھی کے قتل میں بڑا ہاتھ تھا کیونکہ اس کی دانست میں گاندھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ نرم پالیسی رکھنے کا حامی تھا‘بہر حال اگر مودی سرکار نے اپنی یہ پالیسی جاری رکھی کہ بھارت میں مساجد اور مسلم اولیائے کرام کے مزارات کوہندو مندروں میں تبدیل کیا اور اس حرکت پر اقوام متحدہ خواب خرگوش میں مبتلا رہی تو بہت جلد اقوام متحدہ مسلمان ممالک کا اعتماد بھی کھو بیٹھے گی‘ بھارتی جنتا پارٹی اس قدر مسلم کش نہ ہوتی اگر ایڈوانی Advani اور اس کی سیاسی سوچ کے لیڈر اس پارٹی میں کلیدی عہدوں پر فائز ہوتے‘یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت کی سیاست میں کانگریس پارٹی کی نشاۃ ثانیہ کا عمل نظرآرہا ہے۔دوسری جنگ عظیم تک تو امریکہ برطانیہ اور دیگر کئی مغربی ممالک بشمول سوویت یونین ہٹلر کے خلاف جنگ میں یک جان دو قالب تھے پر جوں ہی ہٹلر صفحہ ہستی  سے مٹا تو امریکہ اور برطانیہ اور دیگر کئی مغربی ممالک نے پینترا بدلا ان کی سیاسی ترجیحات بدلیں  اور وہ سوویت یونین کے خلاف نبرد آزما ہو گئے‘ انہیں کمیونسٹ معاشی نظام سے چڑ تھی اور اس وقت چونکہ دنیا میں سوویت یونین کو  کمیونزم کا  سب سے بڑا  علمبردار تصور  کیا جاتا تھا   امریکہ نے اس کے خلاف سرد جنگ کا سلسلہ شروع کر دیا‘  امریکہ نے کئی مغربی ممالک سے مل کر  آپس میں ایک عسکری نوعیت کا نیٹو کے نام سے  اتحاد بھی بنا لیا جس کا پھر سوویت یونین نے وارسا پیکٹ کے نام سے ایک محاذ تشکیل دے کر  توڑ نکالا اور یوں دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی‘جو بات قابل ذکراور غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ گو کہ چین بھی ایک کمیونسٹ ملک تھا پر اس نے ایک لمبے عرصے تک امریکہ اور سوویت دشمنی   میں اپنے آپ کو زیادہ ملوث نہ کیا بلکہ low profile رکھا اور روس نے بھی چین کے ساتھ سرد مہری کی پالیسی رکھی یہ تو جب وسطی ایشیا کا امریکن سی آ ئی اے نے تیا پانچا کیا اور ایک منظم سازش کے تحت سوویت یونین کے چنگل سے کئی وسطی ایشیا کے ممالک کو  نجات دلوائی تو تب کہیں جاکر سوویت یونین کی لیڈرشپ کو احساس ہوا کہ اس کے  ساتھ تو ہاتھ ہو گیا ہے اس نے غالباً اسی مرحلے پر  یہ بھی فیصلہ کیا کہ تن تنہا روس امریکہ  کا سیاسی اور عسکری میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتا اور اسے اس مقصد کے واسطے  چین کی معاونت درکار ہو گی یہ وہ وقت تھا جب پیوٹن روس کے سیاسی افق پر نمودار ہو رہا تھا‘ ایک عام روسی کی طرح اس کا خون بھی جوش مار رہا تھا کہ کس طرح امریکہ سے  سوویت یونین  کو توڑنے کا بدلہ لیا جائے‘چنانچہ روس چین کے قریب آنا شروع ہو گیا اور چین کی لیڈرشپ کو بھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ روس اور چین کے اشتراک عمل سے ہی  دنیا میں کمیونسٹ بلاک ایک مضبوط سیاسی اور عسکری قوت بن سکتا ہے۔
آج چین اور روس واقعی دنیا کا ایک طاقتور عسکری اور سیاسی  گروپ بن چکا ہے جس نے امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کی نیندیں حرام کر دی ہیں‘ لگ یہ رہا ہے کہ آنے والے کچھ عشروں میں شاید عالمی سیاست میں چین اور روس کا راج ہو گا اور امریکہ زوال پذیر ہونا شروع ہو جائے‘ امریکہ کی لیڈرشپ میں سیاسی دیوالیہ پن کی اس سے بڑی نشانی بھلا کیا ہوگی کہ آج روزویلٹ جیسے مدبرانہ سوچ رکھنے والے کی جگہ لاابالی  ٹرمپ وائٹ ہاؤس کا مکین بننے جا رہا ہے۔