بیک چینل مذاکرات سے شہباز شریف کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ ان مذاکرات میں شامل یا پس پردہ پیش آنے والے واقعات اور حالات سے آگہی رکھنے والے تحریک انصاف کے رہنما جانتے ہیں کہ بات چیت کا محور حکومت کی تبدیلی نہیں۔
تاہم، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان ان بیک چینل مذاکرات کے مستقبل کا انحصار عمران خان اور ان کی پارٹی کے بیرون ملک چیپٹرز اور سوشل میڈیا کے رویے پر ہے۔
باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ ان مذاکرات کا مقصد سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہے جس سے ایک طرف موجودہ نظام کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے گا تو دوسری جانب اس سے تحریک انصاف کیلئے سیاسی جگہ بھی پیدا ہوگی۔
اطلاعات کے مطابق عمران خان اس پیشرفت سے کافی خوش ہیں۔ تاہم، ان بیک چینل باتوں کا تسلسل بنیادی طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ عمران خان، ان کے سوشل میڈیا اور بیرون ملک پی ٹی آئی کے حامی آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بیرسٹر گوہر نے عمران خان کو علی امین گنڈا پور اور آرمی چیف سے ملاقات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہوگا کہ انہیں اور ان کی جماعت کو اداروں کے ساتھ تصادم اور کشیدگی کی سیاست ختم کرنے کا عمل ثابت کرنا پڑے گا۔
پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما، جنہوں نے گزشتہ دو برسوں میں تشدد، کشیدگی اور اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی اپنی سیاست کی وجہ سے ہر قسم کے مسائل کا سامنا کیا ہے، وہ اب ایف آئی آر اور عدالتی مقدمات سمیت مشکلات سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف کے اندر عمران خان اور فوج پر تنقید کرنے کی پارٹی کے سوشل میڈیا کے حوالے سے تحفظات ہیں لیکن ایسی آوازیں پہلے کبھی نہیں سنی گئیں۔ اب عمران خان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ گزشتہ ڈھائی سال کی کشیدگی اور تصادم کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا مفاہمت کا راستہ چاہتے ہیں۔
اب تمام نظریں عمران خان کے ایکس اکائونٹ (سابقہ ٹویٹر) اور پارٹی کے سوشل میڈیا پر مرکوز ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب وہ عمران خان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے مستقبل کی خاطر فوج کے ادارے سے محاذ آرائی سے گریز کریں۔