آئیے آج کا کالم ہم پشاور کے ایک سابق گورنر Paolo Avitabileکے ذکر سے شروع کرتے ہیں جسے مقامی لوگ ابو طبیلہ کے نام سے پکارتے تھے ‘سردار خوشونت سنگھ بر صغیر کے ایک مشہور صحافی گزرے ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں ابو طبیلہ کی زبانی مذکورہکہانی درج کی ہے‘ پر اس سے پہلے ہم اپنے قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں جب سابقہ این ڈبلیو ایف پی میں اس کا دست راست ہری سنگھ نلوہ مارا گیا کہ جس کے نام پر ہری پور شہر آبادہے‘ تو رنجیت سنگھ نے ابو طبیلہ کو پشاور کا گورنر لگایا اور چونکہ پشاور کا امن عامہ بہت دگر گوں تھا اسے کھلی چھٹی دی کہ وہ جس طرح مناسب سمجھے اسے ٹھیک کرے ‘ابو طبیلہ ایک کرائے کا فوجی تھا جسے انگریزی زبان میں mercenaryکہتے ہیں اس کا تعلق اٹلی سے تھا اور پشاور کے گورنر بننے سے پہلے اس نے بطور ایک سخت قسم کے منتظم کی حیثیت سے ایران اور وزیر آباد پنجاب میں اپنی سروس کے دوران کافی نام کمایا تھا‘ابو طبیلہ اپنی زبانی اپنی کہانی میں لکھتا ہے‘ میں نے پشاور روانہ ہونے سے پہلے بہت سے لکڑی کے کھمبے بھیج دئیے تھے جنہیں میرے آ دمیوں نے شہر کی فصیلوں کے ساتھ نصب کر دیا تھا ؛مقامی لوگوں نے اس کا مذاق اور فرنگی کے پاگل پن کی ہنسی اڑائی‘ انہیں اور بھی موقع ملا جب میرے آ دمیوں نے ان کھمبوں کے ساتھ رسیاں لپیٹ دیں‘ وہ کہنے لگے شہرپر حکومت توپ و تفنگ سی کی جاتی ہے نہ کہ لاٹھیوں اور رسیوں سے ‘بہرحال جب میرے انتظامات مکمل ہو گئے اور ایک صبح کو انہوں نے ان کھمبوں پر 50بد ترین قسم کے بدماشوں کو لٹکتے دیکھا تو پھر کچھ اور سوچنے لگے اور میں روزانہ ایسے مظاہرے اس وقت تک کرتا رہا کہ جب تک میں نے بدمعاشوں اور قاتلوں کا صفایا نہ کر دیا‘ اس کے بعد مجھے افواہیں پھیلانے اور جھوٹ بولنے والوں سے نمٹنا تھا اور ان کے لئے میں نے یہ سزا رکھی کہ ان کی زبانیں کاٹنا شروع کر دیں اور اس کے بعد پشاورمیں پھر کسی کو کسی بھی قسم کا جرم کرنے کی ہمت نہ ہوئی‘ بعض کتابوں میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مجرموں کو پشاور شہر میں واقع تاریخی مسجد کے مینار سے دھکا دے کر اوپر سے نیچے پھینک دیا کرتا تھا جس سے ان کا سر پھٹ کر ان کی موت واقع ہو جایا کرتی تھی‘ وہ 1837ءسے 1843ءتک پشاور کا گورنر رہا‘ ابو طبیلہ کے ذکر کا مقصد یہ تھا کہ سخت سزا کے بغیر جرائم پر کنٹرول ناممکن ہے‘خدا کا خوف تو لوگوں کے دلوں سے کب کا جا چکا اور اخلاقیات کی کمی سے وطن عزیز دوچارہے‘ مجرموں کو سخت سزا دئیے بغیر جرائم پر کبھی بھی کنٹرول نہیں کیا جا سکا ہے۔
چین میں اگر آج مالی کرپشن جیسے ناسور سے معاشرے کو پاک صاف کر دیا گیا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کرپشن میں ملوث افراد کے ہاتھ باندھ کر انہیں عوام کے سامنے ایک دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے فائرنگ سکواڈ گولیوں سے بھون ڈالتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جن گولیوں سے انہیں مارا جاتا ہے اس کے پیسے بھی ان مجرموں سے پہلے وصول کئے جا چکے ہوتے ہیں۔