جس وقت یہ کالم شائع ہو گا ٹرمپ نے امریکہ کے صدر کا حلف اٹھا لیا ہوگا‘یہ اور بات ہے کہ نہ تو وہ ابراہام لنکن کی طرح قابل اورذمہ دار ہے‘ نہ روزویلٹ کی طرح دوراندیش اور معاملہ فہم‘معاملہ شناس اور نہ جیفرسن کی طرح قانون ساز‘ ہاں البتہ جو خاصیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک شاطر قسم کا بزنس مین ہے جس کو زیادہ سے زیادہ دھن بنانے کے ہنر میں ید طولیٰ حاصل ہے کیا خلیل جبران نے یہ نہیں کہا تھا کہ حیف ہے اس قوم پر کہ جس کے حکمران مفاد پرست ہوں‘ٹرمپ کے کئی لچھن ایسے ہیں کہ جو ان افراد کو زیب نہیں دیتے کہ جو کسی بھی ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوں‘اس قسم کے لاابالی فرد کے ہاتھ میں اٹیم بم چلانے کا بٹن دینا بھی کوئی دانشمندی
کی بات تھوڑی ہے‘یہ کیا ہو گیا ہے‘ امریکہ کے ووٹرز کو اقبال کے اس شعر کی طرف دھیان جاتا ہے کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘ یہاں پر اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ چلو دو منٹ کے لئے امریکہ میں اگر عوام کے منتخب نمائندوں کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ چونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آئے ہیں اس لئے وہ دیگر ریاستی اداروں سے برتر اورمقدم ہیں‘ تو پھر عام آدمی کے ذہن میں کئی سوال اٹھتے ہیں کہ کیا عوام نے ان کو ووٹ دینے سے پہلے اس بات کی چھان پھٹک کی تھی کہ وہ کتنے پانی میں ہیں کیا انہوں نے الیکشن کے واسطے پارٹی ٹکٹ اس بناء پر تو حاصل نہیں کیا کہ انہوں نے پارٹی فنڈ میں کوئی موٹی رقم جمع کی ہو‘ کیا انہوں نے اپنے سیاسی رسوخ پر بنک سے لیا گیا کوئی قرضہ مختلف حیلوں بہانوں سے معاف تو نہیں کرایا‘قصہ کوتاہ اگر ان سوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام نے ان کو پارلیمنٹ کا حصہ بنایا ہے تو پھر تو چلو اگر ان
کے ہاتھوں میں اس قسم کا اختیار دینا کوئی بڑی بات نہیں‘پر اگر ان سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں ملتے تو پھر یقیناً ان کو ہر ریاستی ادارے کے سر پر بٹھانا زیادتی ہے۔ دوسری جانب انتخابات کے لئے میں ایران نے چھانٹی کا ایک عمل شروع کیا ہے اس کو مثال بنا کر وطن عزیز کے مخصوص حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی ایک ایسے سسٹم کو وضع کرنا ہوگا کہ اداروں میں صرف اچھے افراد کا ہی داخلہ ممکن ہو سکے دور حاضر میں جن ممالک میں پارلیمانی جمہوریت قائم ہے ان میں صرف انگلستان کی ہی مثال دی جا سکتی ہے کیونکہ اس کا الیکشن لڑنے سے قبل ہر امیدوار کے کوائف کو ایک ایسی چھننی سے گزارا جاتا ہے کہ جس سے گزرنے کے بعد ہی ان کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہوتی ہے۔